Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ذکر کچھ ’نصف جہاں‘ اصفہان اور شاہوں کے شہر دہلی کا

اصفہان اپنی رعنائی اور دلربائی کے سبب ’نصف جہان‘ کہلاتا تھا۔ (فوٹو: تسنیم نیوز)
درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دِلّی، نہ صفاہاں، نہ سمرقند
شعر کیا ہے ہندوستان سے ازبکستان تک کی سیاحت ہے جس کی ایک منزل ’صفاہان‘ ہے، جو اہل دل کے درمیان ’اصفہان نصف جہان‘ مشہور ہے۔ان شہروں کی وجہ تسمیہ سے پہلے ’درویش‘ کی بات ہو جائے کہ شعر کی ابتدا اسی لفظ سے ہوئی ہے۔
’درویش‘ فارسی زبان کا لفظ ہے،جس کے معنی میں فقیر، گدا، بھکاری، سائل، مسکین، مفلس، محتاج، مفلوک، خاکی، بے نوا، بے بضاعت اور تہی دست شامل ہیں، چوں کہ ان میں سے بہت سی صفات اللہ والوں کا خاصا ہیں یوں اصطلاح میں ’سالک، صوفی، زاہد، قلندر، عُزلت گزین اور گوشہ نشین،‘ کو بھی ’درویش‘ کہتے اور بے نیازی و بے غرضی کو’درویشی‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔

 

محققین کے مطابق ’درویش‘ دراصل ’درآویز‘ ہے، جس کے لفظی معنی ’دروازے سے لٹکا ہوا‘ ہے۔ ایسا سائل یا فقیر جو چوکھٹ سے چمٹ جائے اور کسی طور ٹلنے نہ پائے ’درآویز‘ کہلاتا تھا۔ یہ لفظ ’الف مد‘ کے گرنے اور ’ز‘ کے ’ش‘ سے بدلنے پر ’درآویز‘ سے ’درویش‘ ہوگیا۔ 
’درآویز‘ یعنی مُراد بر آنے تک کسی طور نہ ٹلنے والے ’فقیر‘ کوعربی میں’سائل مبرم‘ کہتے ہیں۔ اس ترکیب کو احمد فراز کی نظم ’محاصرہ‘ کے مصرع میں دیکھا جاسکتا ہے:
 ’مثالِ سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں‘
فارسی میں ’درآویز‘ سے ملتا جُلتا ایک لفظ ’درویز‘ بھی ہے۔ یہ لفظ ’در‘ یعنی دروازہ اور ’ویز‘ یعنی جستجو سے مرکب ہے۔ چونکہ فقیر روٹی کی جستجو میں در بہ در پھرتا ہے اس لیے درویز‘ کہلاتا ہے۔ اس ’درویز‘ سے لفظ ’درویزہ‘ بنا اور ’دریوزہ‘ پکارا گیا۔ پھر یہی ’درویز‘ معمولی تغیر کے بعد ’درویش‘ ہوا اور فقیر و مسکین سے بڑھ کر صوفی و سالک کے معنی میں استعمال کیا گیا۔
’درویز‘اور’درویش‘ کے درمیان فرق کو میر تقی میر کے شعر سے بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے:
دریوزہ کرتے گذری گلیوں میں عمر اپنی
درویش کب ہوئے ہم، تکیہ کہاں بنایا

Caption

’دَرویش‘ کا ایک تلفظ ’دُرویش‘ بھی ہے، جو لفظ ’دُرواش‘ کی بدلی ہوئی صورت ہے۔ ’دُر‘عربی میں ’موتی‘ کو کہتے ہیں، اسے آپ دُرِ مکنون، دُرشہوار، دُر نایاب اور دُر افشاں کی تراکیب میں دیکھ سکتے ہیں، جب کہ ’واش‘ کلمۂ تشبیہہ ہے اور اس کے معنی ’جیسا یا مثل‘ کے ہیں۔ یوں ’دُرویش‘ کے معنی ہوئے ’موتی جیسا‘۔ چونکہ قلندر کا دل ’مثلِ موتی‘آلائشِ دنیا سے محفوظ ہوتا ہے، اس لیے ’دُرویش‘ کہلاتا ہے۔ خیر ’دَرویش‘ ہو یا ’دُرویش‘ فی زمانہ دونوں کم یاب اور’درویش نما‘ کی بہتات ہے، اسی لیے توعلامہ اقبال فریاد کُناں ہیں:
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
درویش کا قصہ تمام ہوا، اب شاہوں کے شہر’دہلی‘ کی بات کرتے ہیں، جو دل والوں میں ’دِلّی‘ مشہور ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ شہر ’راجا ڈھللو‘ کی نسبت سے ’ڈھلی‘ پکارا گیا تو دوسرے بیان کے مطابق اس شہر کا قدیم نام ’ڈھیلی وال‘ تھا، جو ’ڈھیلی وال‘ سے ’ڈھیلی‘ ہوا، پھر ’ڈھیلی‘ سے ’دہلی‘ بنا اور ’دلّی‘ کہلایا۔ ایک اور دلچسپ نقطۂ نظر کے مطابق ’دہلی‘ لفظ ’دہلیز‘ کی بگڑی صورت ہے، اس شہر کو یہ نام دریائے سندھ اور گنگا کے وسیع میدانی علاقے کی’دہلیز‘ ہونے کی وجہ سے دیا گیا۔
دلّی پر حکمران شاہوں اور شہنشاہوں نے اسے سجانے اور سنوارنے کا اس قدر اہتمام کیا کہ یہ عالم میں انتخاب قرار پایا اورمیر تقی میر سے کہلوایا : 
دلّی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی

’دَرویش‘ کا ایک تلفظ ’دُرویش‘ بھی ہے، جو لفظ ’دُرواش‘ کی بدلی ہوئی صورت ہے۔ (فوٹو: فیس بک)

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ شہر ہمیشہ حملہ آوروں کے نشانے پر رہا، یہاں تک کہ دلّی کا اُجڑنا ضرب المثل ٹھہرا، اور شاعر کو کہنا پڑا:
دل کی بستی پرانی دلی ہے 
جو بھی گزرا ہے اس نے لوٹا ہے 
اب بات ہوجائے’اصفہان‘ کی، جو کبھی دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا اور اپنی رعنائی اور دلربائی کے سبب ’نصف جہان‘ کہلاتا تھا۔ اس شہر نے بہت سے نام پائے مگر شہرت ’اصفہان‘ کے نام سے پائی۔ اصفہان کی وجہ تسمیہ سے متعلق دو آراء مشہور ہیں اور دونوں ہی لائق التفات ہیں۔ اول یہ کہ شہر کبھی بڑی فوجی چھاؤنی تھا، یوں سپاہ کی کثرت کے سبب ’سپاہان‘ پکارا گیا،اورعربی کے زیر اثر’سپاہان‘ سے’صفاہان‘ اور ’اصفہان‘ ہوگیا۔  
دوسری رائے بھی پہلی کے مماثل ہے اور وہ یہ کہ افواج کی کثرت کے باعث شہر لشکر گاہ کا منظر پیش کرتا تھا جہاں ہر سو اسپ سواروں کے پرے گھومتے دکھائی دیتے، یوں اسپ (گھوڑا) کی نسبت سے شہر نے ’اسپاہان‘ نام پایا جو بعد ازاں ’اصفہان‘ کہلایا۔ 
اب بیان ہوجائے ’سمر قند‘ کا جسے شربت کے شوقین ’ثمرقند‘ لکھ کر پیاس بجھاتے ہیں۔ موجودہ ازبکستان میں واقع ’سمر قند‘ وسط ایشیا کا تاریخی شہر ہے۔

اصفہان کو سپاہ کی کثرت کے سبب ’سپاہان‘ پکارا گیا،اورعربی کے زیر اثر’سپاہان‘ سے’صفاہان‘ اور ’اصفہان‘ ہوگیا۔ (فوٹو: )

یہ نام ’سمر‘ اور ’قند‘ سے مرکب ہے، کسی نے ’سمر‘ کو شہر کے بانی کا نام قرار دیا، تو کسی نے ’سمر‘ کو ’اسمارا‘ کے بگاڑ کا نتیجہ بتایا، جس کے معنی پتھر یا چٹان کے ہیں۔ دوسری طرف معتبر لغت نویس ’سمر‘ کی اصلیت سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔
جہاں تک نام کے دوسرے جُز ’قند‘ کی بات ہے تو اس کے معنی شہر اور قلعہ کے ہیں، اسے شہر کے معنی میں سمرقند کے علاوہ تاشقند، یارقند اور خوقند کے ناموں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ لفظ ’قند‘ کا ترکی تلفظ ’گند‘ ہے، جب کہ یہ اصلاً فارسی زبان کا ’کند‘ ہے، جس کی قدیم پہلوی صورت ’کنتا‘ ہے۔ 
ہمارے مطابق لفظ ’کند، گند اور قند‘ کی اصل سنسکرت کا کھنڈ (खण्ड) ہے، جس کے معنی میں ’قلعہ، علاقہ، تعلقہ، جاگیر، قلمرو، ریاست اور ملک‘ شامل ہے۔ ان معنی کے ساتھ اس ’کھنڈ‘ کو ہندوستان کے مشہور علاقوں روہیل کھنڈ، بُندیل کھنڈ اور اُترا کھنڈ کے ناموں میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اب اس ’کھنڈ‘ کے مشابہ الفاظ ’کُنڈ، کُنڈا، کُنڈی، کُنڈل، کُنڈلی، کنٹھ ، کنٹھی اور کنٹھا پر غور کریں آپ کو ان سب الفاظ میں ’حلقہ، ہالہ اور حصار‘ صاف نظر آجائے گا۔ 

شیئر: