Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ میں اوپن بیلٹ کیس کی سماعت مکمل، رائے محفوظ

پاکستان کی سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے حوالے سے دائر صدارتی ریفرنس میں سماعت مکمل کرتے ہوئے رائے محفوظ کر لی ہے۔ 
جمعرات کو سپریم کورٹ میں ریفرنس میں انفرادی حیثیت سے فریق بننے والوں، پاکستان بار کونسل، الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیے جبکہ اٹارنی جنرل نے جواب الجواب دلائل دیے۔ 
عدالت نے رائے سے متعلق یہ نہیں بتایا کہ وہ عدالتی فیصلے کی طرح اسے جاری کرے گی یا اٹارنی جنرل آفس کے ذریعے صدر مملکت کو اپنی رائے بھجوا دے گی۔ 
سماعت کے اختتام پر الیکشن کمیشن کی طرف سے استدعا کی گئی کہ ’اگر رائے 28 فروری سے پہلے آ جائے تو الیکشن کی تیاری کرنے میں آسانی ہو گی۔‘
اس سے قبل الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’کچھ نکات عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ آئین کا آرٹیکل 225 الیکشن کے معاملے پر ٹریبیونل بنانے کا اختیار دیتا ہے۔‘ 
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ’آپ کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ جو سینیٹ الیکشن آئین کے تحت ہوتے ہیں وہ ٹریبیونل میں چیلنج نہیں ہو سکتے۔‘
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ’میں یہی نکتہ عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔‘ 
وکیل الیکشن کمیشن نے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’رکن اسمبلی اپنی پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے کا حق رکھتا ہے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ عدالت کو یہ سب کیوں بتا رہے ہیں۔ آپ الیکشن کمیشن ہیں کیس کے میرٹس پر کیوں جا رہے ہیں۔ آپ کہہ چکے ہیں موجودہ قانون میں ترمیم تک الیکشن سیکریٹ بیلٹ سے ہی ہوں گے۔ ‘
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ’پہلے دن سے ایک ہی سوال ہے کہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کو 'گارڈ' کرنے کے لیے الیکشن کمیشن نے کیا کیا؟ الیکشن کمیشن ایک سویا ہوا ہاتھی ہے۔ ہم نے الیکشن کمیشن کو کہا جاگ جائیں لیکن آپ نے کہا نہیں ہمیں سونے دیں۔ صرف الیکشن کرا دینا الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ نہیں۔ ‘
جس کے بعد چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے کہا کہ ’آپ چلے جائیں آپ کو سن لیا۔‘
اٹارنی جنرل نے جواب الجواب میں کہا کہ ’عدالت میں کہا گیا کہ حکومت سیاسی ایجنڈا لے کر آئی ہے۔ حکومت کا سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے میں کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں۔‘
’حکومت صرف انتخابات میں شفافیت چاہتی ہے۔ ووٹ کا جائزہ لینے سے سیکریسی ختم نہیں ہوتی۔ کوئی شہری پیسہ لے کر ووٹ نہ دے یہ جرم ہو گا۔ کوئی ایم پی اے ووٹ نہ ڈالنے کے پیسے لے کر ووٹ ڈالے تو جرم نہیں ہو گا۔ ریفرنس سیاسی نہیں آرٹیکل 226 کی تشریح کے لیے ہے۔‘
جسٹس یحیی آفریدی نے سوال کیا کہ ’کیا ریفرنس پرسپریم کورٹ کی رائے حتمی ہوگی؟‘ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’حکومت عدالت کی رائے کی پابند ہو گی۔‘
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ ’عدالتی رائے پر نظر ثانی درخواست آ سکتی ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’ریفرنس پر نظر ثانی درخواستیں نہیں آ سکتیں۔‘
اس پر جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ ’کیا ایسا فیصلہ درست ہو گا جس کے اثرات سیاسی ہوں اور نظر ثانی بھی نہ ہو سکے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدالت ہر چیزکا تفصیل سے جائزہ لے کر فیصلہ کرتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت کا سیاست سے تعلق نہیں، صرف آئین کی تشریخ کریں گے۔‘
جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’ریفرنس پر جواب دیں یا نہ دیں اثرات سیاسی ہی ہوں گے۔‘
 

شیئر: