Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میرے عزیز ہم وطنوں کہنے کا سلسلہ بھی ختم ہونا چاہیے: جسٹس قاضی فائز

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت براہ راست نشر کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کے عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی سماعت براہ راست نشر کرنے پر دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ کارروائی لائیو ٹیلی کاسٹ ہونے سے مزید ڈسپلن آئے گا۔
بدھ کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دس رکنی بینچ کے سامنے اپنے دلائل میں کہا کہ ’ہمیں ماضی کو نہیں بھولنا چاہیے، آمر ٹی وی پر آ کر کہتا ہے کہ میرے عزیز ہم وطنو۔۔ یہ سلسلہ بھی ختم ہونا چاہیے۔‘
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ٹی وی پر ایک جج کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاسکتا ہے تو سماعت براہ راست نشر کیوں نہیں کی جاسکتی؟ انہوں نے برطانیہ، انڈیا اور امریکہ میں عدالتوں کی کارروائی نشر ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالتوں کی کارروائی نشر ہونے سے مزید ڈسپلن آئے گا، اپنے چیمبر میں بیٹھ کر برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق کیس کو دیکھا، جس سے میں نے خود بہت کچھ سیکھا ہے، عدالتوں کی کارروائی براہ راست نشر کرنے سے اچھے اور برے وکیلوں کی تمیز بھی ہوگی۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا ابھی عوام نے وکلا کو صرف پتھر مارتے ہوئے ہی دیکھا ہے اس لیے وکلا گردی کا نام مشہور ہو چکا ہے مقدمات نشر ہونے سے عوام وکلا کا اصل چہرہ بھی دیکھیں گے، یہ وکلا گردی والے تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے دلائل کے دوران کہا کہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کا کیس سب سے متنازع رہا ہے، جس کے بارے میں جسٹس نسیم حسن شاہ نے ذوالفقار علی بھٹو کیس کے دوران عسکری دباؤ کا اعتراف بھی کیا۔ 
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کیس کی اپیل کھلی عدالت میں نہیں سنی گئی؟ 
جسٹس فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ مجھے اس بارے علم نہیں کیونکہ میں عدالت میں موجود نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر مقدمات کی کارروائی براہ راست نشر ہو تو کوئٹہ، گوادر اور پسنی میں موجود شہری بھی اپنے کیس دیکھ سکتے ہیں ورنہ وہ کل کو کہے گا ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ ہم خود بندوق اٹھا کر انصاف کریں گے۔‘
جسٹس منظور ملک نے کہا کہ آپ ایسی بات نہ کریں جس سے جب آپ بنچ میں بیٹھیں تو فیصلوں پر اثر انداز ہوں۔ 
جسٹس قاضی فائز عیسی نے مقدمات کی براہ راست نشریات کے فوائد گنواتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں یہ پہلا ٹیسٹ کیس ہوسکتا ہے، اگر یہ درخواست مسترد ہوتی ہے تو یہ میری نہیں بکہ پاکستان کے عوام کی درخواست مسترد ہوگی۔ 

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت کو کہا ’میرے نام پر داغ لگا ہوا ہے جسے صاف کرنے کا موقع ملنا چاہیے‘۔ (فوٹو: فری پک)

قاضی فائز عیسی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر جواب طلب کر لیا۔
قبل ازیں منگل کو جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بعض اوقات ذاتی معاملات میں اچھا رویہ رکھنا مشکل ہوتا ہے، وکیل سائل اور عدالت کے درمیان رابطہ کار ہوتا ہے، آپ کا اور میرا تعلق ایک آئینی ادارے سے ہے۔ ہمیں بہت سی چیزوں پر رائے دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ججز کی ایک ڈیوٹی صبر اور تحمل کرنا بھی ہے۔ اعتراضات اور سوالات پر توقع ہے کہ آپ تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔‘ 
اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ’جہاں آپ کو محسوس ہو کہ میں حد پار کر رہا ہوں مجھے روک دیا جائے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ ’لندن کی جائیدادیں میرے جج بننے سے بھی پہلے کی ہیں۔ جائیدادیں خریدتے وقت میرے بچے بالغ تھے۔ سپریم کورٹ کا جج بننے کے بعد میں نے کوئی جائیداد نہیں خریدی۔ اہلیہ نے نجی بینک میں فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوایا جس سے رقم منتقل ہوئی۔ فارن کرنسی اکاؤنٹ کو اس وقت قانونی تحفظ حاصل تھا۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’براہ راست کوریج صرف عدالتی معاملہ نہیں۔ سپریم کورٹ کا پالیسی اور انتظامی مسئلہ بھی ہے۔ براہ راست کوریج میں عملی طور پر بھی بہت مشکلات ہیں۔ کسی ایک اخبار نے شاید غلط خبر لگائی ہو۔ آپ کی بات سننے والے تمام افراد جانب دار نہیں ہوسکتے۔‘
انہوں نے مزید کہا ’میرے نام پر داغ لگا ہوا ہے جسے صاف کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ براہ راست کوریج میں ایڈیٹنگ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ عدالت کا فیصلہ چاہے میرے خلاف آئے لیکن ٹی وی پر براہ راست آنا چاہیے۔‘
کیس کی مزید سماعت پیر کو ہوگی۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: