Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سقراط سے کامیو تک: فلسفے کے ذریعے بحرانوں کا مقابلہ

سقراط نے ایتھنز کے شاعروں اور جرنیلوں کا مقابلہ کیا تھا۔ (فوٹو: وکیپیڈیا)
انسان کے وجود سے ہی مختلف بحران موجود ہیں۔ یہ اس کی زندگی کا حصہ ہیں، یہ بحران کبھی داخلی ہوتے ہیں اور کبھی خارجی۔ کچھ لوگ فلسفے کو ایک پیچیدہ چیز سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ لوگوں کی رائےمیں یہ بیکار اور ایک جنون ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھی انسانیت کو کسی بڑے بحران یا سخت حالات کا سامنا ہوا تو فلسفے کے ذریعے ہی اس کا حل نکالا گیا۔
الرجل میگزین میں شائع والے ایک مضمون کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ کورونا کی وبا اور اس کی معاشی بدحالی نے ہم سب کو فلسفی بنا دیا ہے۔
’سلو تھراپی‘ جیسا کہ فلسفہ کہتا ہے، بالکل وہی ہے جس کی ہمیں ابھی ضرورت ہے۔ یہاں اس سے استعاریاتی عکاس مراد نہیں ہے بلکہ وہ فلسفہ ہے جس کا قدیم یونانیوں نے تصور کیا تھا، یعنی روحانی علاج اورعملی طب۔
فلسفہ ہمیں الجھے ہوئے سوالوں کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے اور اس سے ہمیں ذاتی مسائل کا جواب ملنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ اسی طرح ہم جس چیز کو برداشت نہیں کرسکتے، فلسفہ ہمیں وہ چیز برداشت کرنے کا گر سکھاتا ہے۔
فلسفہ آسان اور سیدھے جوابات فراہم نہیں کرتا ہے۔ لیکن اس سے ہمارے سوالات میں درستی آتی ہے، کیونکہ یہ ہمارے خیالات کو تبدیل کرتا ہے۔
یہ اچھے وقت میں ایک کارآمد ہنر اور برے وقت میں انمول تحفہ ثابت ہوتا ہے۔
فلسفہ اور بحران ہمیشہ ہی ساتھ رہتے ہیں۔ وبائی امراض اور معاشی و معاشرتی انتشار کے دور میں بڑے بڑے مفکرین نے کام کیا ہے۔ ان کا فلسفہ ایک حاصل شدہ حکمت ہے، جو لازوال ہے۔

سقراط

کورونا وائرس نے انسانیت کو عاجز بنایا ہے اور اپنی حقیقی حیثیت اور صلاحیتوں کو جاننے پر مجبور کیا ہے۔
یقین مفقود ہوچکا ہے، خوف کا غلبہ ہے اور کسی کے پاس اس کا حل نہیں ہیں۔ اگر ہم ان سب حالات کا جواب سقراط کی زبانی جاننا چاہیں تو اس کا جواب یہ ایک لفظ ہو گا، ’بہترین‘۔

سلو تھراپی کا فلسفہ کورونا کے بحران کا مقابلہ کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

سقراط یقینا ہماری آزمائش اور مشکلات پہچان لے گا، کیوںکہ اس کا زمانہ ایک عظیم طاقت اتھینا کے زوال کا تھا اور اس نے فوجی مہم جوئی اور طاعون کا مقابلہ بھی کیا تھا۔
سقراط نے ایتھنز کے شاعروں اور جرنیلوں کا مقابلہ کیا اور لوگوں کو جلد ہی پتہ چل گیا کہ وہ اتنے عقلمند نہیں تھے، جتنا وہ تصور کرتے تھے۔  سقراط کے سامنے جنرل اپنی ہمت کی اور شاعر اشعار کی وضاحت کرنے سے قاصر تھے۔ سقراط جہاں بھی جاتا وہ لوگوں سے ملتا تھا ’وہ انہیں وہ بتاتا تھا جو وہ نہیں جانتے تھے۔‘
ہمارے دور میں کورونا کی وجہ سے مکمل یا جزوی بندش نے ہمیں اپنے آپ کے بارے میں گہرے سوالات کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسے حالات کا سامنا بھی ہو گا۔
اس طرح سقراط کہتا ہے حکمت کی بھی تشکیل ہوتی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص فطرتی زندگی کی طرف لوٹنا چاہتا ہے، لیکن کیا ہم میں سے کسی کو یہ معلوم ہے کہ ’فطرت‘ کیا ہوتی ہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ دور میں ہمت کی ضرورت ہے لیکن کیا ہم جانتے ہیں کہ ہمت کیا ہے؟
اب تک ہم نے ڈاکٹروں، نرسوں اور ہیلتھ ورکرز کو چیمپئنز کی فہرست میں شامل کیا ہے، لیکن سقراط کے نقطہ نظر کے مطابق ہمیں نئے افراد کی بھی تلاش شروع کرنی ہو گی۔
سقراط اپنے طریقہ کار کے مطابق یقین کرتا ہے کہ علم کی طرف پہلا قدم کسی کی لاعلمی کی پہچان ہے۔ کیونکہ سقراط اپنے آپ کو کچھ بھی نہ جاننے والا بیان کیا کرتا تھا۔ انسان جب اپنی جہالت سے آگاہ ہوجاتا ہے تو علم کا راستہ کھلتا ہے۔

تھورو کا کہنا ہے کہ ہر طوفان اور اس میں پانی کا ہر قطرہ ایک قوس قزح ہوتا ہے۔ (فوٹو: وکیپیڈیا)

ہنری ڈیوڈ تھورو

ہنری ڈیوڈ تھورو ایک امریکی مصنف، شاعر، تاریخ دان اور فلسفی ہیں۔ جو بطور معاشرتی نقاد اور فطرت کے ساتھ اپنے رومان کے لیے مشہور ہیں۔ انیسویں صدی کے دوران تھورو مختلف بحرانوں سے دوچار رہا۔ اس کا ملک خانہ جنگی کےساتھ آگے بڑھ رہا تھا، پھر بھی اس نے اس ہنگامہ خیز ادوار سے فائدہ اٹھایا اور ہر چیز میں خوبصورتی ڈھونڈی، جو عام بات نہیں تھی۔
ستمبر کے مہینے کے کسی دن وہ جھیل والڈن کے کنارے بیٹھا غور و فکر کررہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ پانی پودوں کے بیجوں سے ڈھک گیا ہے۔ باقی لوگوں کے برعکس جو اس منظر کو دور سے دیکھ رہے تھے کیونکہ پانی اس طرح داغوں سے بھرا ہوا لگتا ہے، تھورو نے دیکھا کہ یہ ’صاف اور خوبصورت منظر ہے۔ ‘
ہنری ڈیوڈ تھورو نے دن رات کئی زاویوں سے سمندر کی سطح کو دیکھا اور یہاں تک کہ اس نے اپنے پیروں کے بیچ اپنے سر سے اس کی جانچ کی تاکہ وہ اس منظر کو الٹا دیکھیں۔ اس کا نتیجہ اس نے یہ نکالا کہ اگر ہم دنیا کو تبدیل نہیں کر سکتے تو ہمیں دیکھنے کے انداز کو تبدیل کرنا ہے۔
اس کا مطلب تھا ’زاویہ بدلنا اور مختلف شکلوں سے دیکھنا۔‘
 مختلف شکلوں سے دیکھنا کے لغوی معنی نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ذہنیت کو تبدیل کرنے کا استعاری معنی ہے۔
ہنری ڈیوڈ تھورو کا کہنا ہے کہ ’جب صحیح زاویے سے دیکھا جائے تو ہر طوفان اور اس میں پانی کا ہر قطرہ ایک قوس قزح ہوتا ہے۔‘

مشیل ڈی مونٹائگن

مشیل ڈی مونٹائگن سولہویں صدی میں فرانس میں مقیم تھے، جب طاعون کی وجہ سے موت ہر جگہ موجود تھی۔
طاعون کی وجہ سے بورڈو کی آبادی کم ہو رہی تھی، جب اس نے میئر کا عہدہ سنبھالا۔

البرٹ کامیو کو اپنے ناول متھ آف سیسیفس کی وجہ سے شہرت ملی۔ (فوٹو: ویکیپیڈیا)

وہ اپنے قریبی دوست کی موت پر غم سے نڈھال ہو گیا اور جنونی حرکات کرنے لگا۔
کبھی وہ ٹاور کی چوٹی پر بیٹھ جاتا تو کبھی پہاڑیوں پر چڑھ جاتا۔
اس عرصے کے دوران اس نے انتہائی حیرت انگیز مضامین لکھے اور بڑے بڑے مصائب سے خوبصورتیاں تلاش کیں۔
وہ موت کے سامنے ٹھہر گیا اور دنیا سے دور ہو گیا، وہ پیچھے ہٹ گیا تاکہ وہ خود کو پوری وضاحت کے ساتھ دیکھ سکے۔
مشیل ڈی مونٹائگن ہمیں بھی یہی کام کرنے اور اس وبا میں اپنے آپ کو پہچاننے اور خود کو الگ ہو کر دیکھنے کا مشورہ دیتا ہے۔

زینو آف سٹیوم

زینو تباہی اور مصائب کے زمانے میں پیدا ہوا۔ اس یونانی فلاسفر نے تیسری صدی قبل مسیح میں اس فلسفیانہ نظریے کی بنیاد رکھی، جو سٹوکزم کہلاتا ہے۔
سٹوکزم اس وقت سے آج تک ایک ایسا طریقہ کار مہیا کرتا ہے جس کے ذریعے انسان آفات اور مشکلات سے نمٹ سکتا ہے۔
سٹوکزم فلسفے کا خلاصہ ایپکٹیٹس نے بیان کیا، جو زینو کا غلام تھا اور بعد میں استاد اور فلسفی بن گیا۔
ایپکٹیٹس کے مطابق جو چیز لوگوں کو پریشان کرتی ہے وہ امور اور واقعات نہیں بلکہ ان کی تشخیص ہے۔
ایپکٹیٹس کا ماننا ہے کہ ’بہتر یہ ہے کہ جو تبدیل کیا جا سکتا ہے، اسے بدل دینا چاہیے اور جسے بدلا نہیں جاسکتا، اسے قبول کر لینا چاہیے۔‘
سٹاکزم کے اصول کے مطابق وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے ہمیں لوکیوس سینیکا کے ایک نظریہ کا سہارا لینا ہو گا۔

مونٹائگن بڑے بڑے مصائب میں بھی خوبصورتی تلاش کرتا تھا۔ (فوٹو: دی فلاسفی ڈاٹ کام)

اس نظریے کے مطابق ’بحرانوں کے دوران بدترین ممکنہ منظرناموں کا تصور کرنا چاہیے اور ذہن کو بار بار تصور کرنے کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ جیسے جلاوطنی، تشدد، جنگ اور کشتی کا الٹنا وغیرہ۔‘
بے شک لوکیوس سینیکا کی فہرست ہماری حالیہ فہرست سے مختلف ہے، جس میں چوٹ، بھاری بھرکم بل جن کی ادائیگی مشکل ہوتی ہے اور ملازمت سے محروم ہونے کا خوف شامل ہے۔
لیکن دونوں کا خیال ایک جیسا ہے۔ آفات کے بارے میں سوچ کر ہم مستقبل کی مشکلات کو دور کر دیتے ہیں جن سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے اور آج ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس کی تعریف کرنا شروع کردیتے ہیں۔

البرٹ کامیو

البرٹ کامیو نے دوسرے فلسفیوں سے زیادہ پریشانیوں کا سامنا کیا۔ وہ الجزائر میں یتیم پیدا ہوا اور اس کی ماں بہری تھی۔ وہ زمانہ بھی عالمی جنگ کا تھا۔
سنہ 1960 میں البرٹ کامیو 47 سال کی عمر میں ایک حادثے میں مر گیا لیکن اس سے قبل ہ وہ اپنے ساتھی فلسفیوں کے ساتھ دلائل اور دانشورانہ جھگڑوں کا آغاز کر چکا تھا۔
 وہ اپنے ناول ’طاعون‘ کی وجہ سے مشہور نہیں بلکہ اس سے کم مشہور ناول “The Myth of Sisyphus” کی وجہ سے اسے شہرت ملی۔
اس ناول میں سیسیفس کے بارے میں بات کی گئی ہے جو یونانی افسانوی روایات کے مطابق ایک انتہائی جعلی کردار تھا۔
اس نے موت کے دیوتا کو دھوکہ دیا جس سے بڑے دیوتا زیوس کو غصہ آیا اور اس نے اسے ایک چٹان اٹھا کر پہاڑ کی چوٹی پر لے جانے کی سزا دی۔ جب بھی وہ چوٹی پر پہنچتا، چٹان کو دوبارہ وادی کی طرف دھکیل دیا جاتا اور یوں وہ ایک مستقل عذاب کا استعارہ بن گیا۔

زینو نے تیسری صدی قبل مسیح میں سٹوکزم کے فلسفے کی بنیاد رکھی۔ (فوٹو: ویکیپیڈیا)

کورونا وائرس نے لوگوں کے اپنے لیے بنائے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا، خواہ وہ شادیاں ہو، گریجویشن کی تقریبات ہو یا ملازمت کے نئے مواقع ہوں۔
ہم سب نے کھڑے ہو کر اپنے منصوبوں کو سیسیفس کی چٹان کی طرح پہاڑ سے گرتے دیکھا، تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
کامیو کے مطابق جو کچھ ہو رہا ہے اس کے باوجود استقامت برقرار رکھنی ہے۔ ہمیں تباہی کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خوشحال سیسیفس کا تصور کرنا ہے۔ کامیو کا کہنا ہے کہ سیسیفس کی قسمت اس کی ملکیت ہے، کیوںکہ یہ چٹان اس کی ہے اور یہ اس کا مشن ہے اور وہ خود ہی اپنی تقدیر کا تعین کرتا ہے۔
کیا آپ فی الحال ایسے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جو بے مقصد اور نتائج کے بغیر نظر آتے ہیں؟ کیا آپ کورونا کی وجہ سے زندگی کی مشکلات سے نمٹنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں؟
کامیو کے مطابق ’جب ہم اس مرحلے پرپہنچ جاتے ہیں تو ہم زندگی کوفضول سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، ہمیں جو کرنا ہے وہ کوشش ہے، نتیجہ نہیں اس لیے کوشش جاری رکھنی چاہیے۔‘
فلسفیوں کی طرح کورونا کے دوران ہمیں جو کرنا ہے، وہ ہے اپنی آزمائش کو دیکھنا، لیکن ساتھ ہی مایوسی کا شکار ہونے کی بجائے استقامت پر قائم بھی رہنا ہے۔

شیئر: