Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے عدالتی مقدمات میں خواتین کی گواہی ’نہ ہونے کے برابر‘

پنجاب میں اس وقت 13 لاکھ کے قریب مقدمات زیر التوا ہیں۔ (فوٹو: لاہور ہائی کورٹ)
’میں 30 سال سے زائد عرصے سے وکالت کے شعبے سے منسلک ہوں اور سینکڑوں کی تعداد میں قتل اور دوسرے جرائم کے مقدمے لڑے ہیں۔ اس عرصے میں میں نے ایک یا دو خواتین کو مقدمات میں گواہی دیتے دیکھا ہے۔ اگر میں اپنے تجربے کی بنیاد پر آپ کو بتاؤں تو ایک ہزار مقدمات میں آپ کو دو یا تین خواتین گواہ ملیں گی جو کسی مقدمے میں ایک گواہ کے طور پر پیش ہوتی ہیں، باقی سارے گواہ مرد ہی ہوتے ہیں۔
یہ خیالات ہیں پاکستان کے معروف وکیل آفتاب باجوہ کے جو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرڑی بھی رہ چکے ہیں۔ 
پاکستان کے عدالتی نظام میں مختلف طرح کے مقدمات میں سب سے طاقتور شہادت شخصی گواہی سمجھی جاتی ہے، جس میں کسی شخص نے جرم اپنے سامنے ہوتے دیکھا ہو۔
لیکن خاموشی سے ایک پریکٹس اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی چل رہی ہے کہ لوگ اپنے مقدمات میں خواتین کو بطور گواہ نامزد نہیں کرتے۔
آفتاب باجوہ سمجھتے ہیں کہ ’اس کی وجہ پاکستان کا کلچر ہے۔ لوگ اپنی خواتین کو کیوں کورٹ کچہری کے چکر لگوائیں؟ ٹرائل میں تو مخالف وکیل جب جرح کرتے ہیں تو گواہ کی ذاتیات پر بھی باتیں ہوتی ہیں۔ اس لیے کسی جرم کو خواتین نے ہوتے دیکھا بھی ہو لیکن جب مقدمہ چلتا ہے تو اس میں گواہ صرف مرد ہی ہوتے ہیں۔

پاکستان کے عدالتی نظام میں مختلف طرح کے مقدمات میں سب سے طاقتور شہادت شخصی گواہی سمجھی جاتی ہے (فائل فوٹو)

سابق سیشن جج عابد قریشی جو اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور پنجاب کے جوڈیشل افسران میں ابھی تک ریکارڈ سب سے زیادہ 37 سال تک جج رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی بڑی وجہ پاکستان کا عدالتی نظام ہی ہے۔
’اس بات کو ایک اور طرح سے سمجھا جا سکتا ہے۔ دو طرح کے مقدمے ہوتے ہیں جن میں عورت کو ہر صورت عدالت میں پیش ہونا ہوتا ہے۔ ایک تو جتنے بھی فیملی کورٹس کے مقدمے ہیں اس میں براہ راست عورت فریق ہوتی ہے۔ اس لیے وہ تو عدالت میں آتی ہی آتی ہے اور ایسے مقدموں میں 99 فیصد وہ پورے عدالتی عمل سے گزرتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’دوسرا جب کسی خاتون سے ریپ کیا جاتا ہے تو اس کے عدالت کے روبرو بیان کے بغیر وہ کیس آگے نہیں چل سکتا۔ اس کے علاوہ جرائم سے متعلق جتنے بھی مقدمات میرے سامنے آئے آئے ان میں خواتین کی گواہی نہ ہونے کے برابر ہی تھی۔‘
عابد قریشی نے خواتین کی گواہی کے حوالے سے کہا کہ ’مجھے ایک یا دو مقدمات یاد ہیں جیسا کہ ایک خاتون کے سامنے اس کے شوہر کو قتل کیا گیا تو اس نے گواہی دی۔ اسی طرح ایک عورت کے بیٹے کو قتل کیا گیا تو اس نے خود گواہی دی اور ایسے میں لوگوں کو سزائیں ہوئیں۔ لیکن یہ ایسے ہی ہے کہ اگر اس گھر میں مزید کوئی مرد نہ ہو یا کم ہوں تو خواتین بھی گواہی دینے آجاتی ہیں لیکن یہ اکا دکا ہی ہوتا ہے۔
خواتین گواہان کی اتنی تعداد کم کیوں ہوتی ہے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے عابد قریشی کا کہنا تھا ’پاکستان کے قانون میں عورت یا مرد کی گواہی میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ ان کی گواہی برابری کی سطح کی ہے لیکن ہمارا عدالتی ماحول ایسا نہیں جو خواتین فرینڈلی ہو۔‘

پاکستان کے قانون شہادت کے مطابق گواہان کی تخصیص صرف عمر کی لحاظ سے کی جاتی ہے (فوٹو: روئٹرز)

ان کے بقول ’جس طرح تاریخیں لی جاتی ہیں اور مقدمات کو لمبا کھینچا جاتا ہے، لوگ اپنے گھر کی خواتین کو کیوں کچہریوں میں ساتھ لے کر آئیں گے، جہاں ڈھنگ سے بیٹھنے کی جگہ ہی نہیں۔ دوسرا گواہی دینا اور گواہ کی حفاظت کرنا ایک الگ سے کہانی ہے۔ ہمارے معاشرے بھی ابھی عورت اتنی طاقتور نہیں ہوئی کہ عدالتوں میں خطرناک مقدمات میں بطور گواہ پیش ہو سکے ابھی اس میں وقت لگے گا۔
صوبہ پنجاب کے محکمہ پراسیکیوشن کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں اس وقت 13 لاکھ کے قریب نچلی عدالتوں میں مقدمات زیر التوا ہیں اور ان میں ٹرائل کی سٹیج پر تقریبا پانچ لاکھ کے قریب مقدمات ہیں۔
اس حوالے سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب عبدالصمد خان نے اردو نیوزکو بتایا کہ ’ہمارے پاس کوئی مرکزی ڈیٹا تو نہیں جس میں یہ بتایا جا سکے کہ اس وقت پنجاب میں جتنے ٹرائل ہو رہے ہیں، ان میں جو گواہوں کی فہرستیں ہیں، ان میں خواتین کی تعداد کیا ہے۔ لیکن میں ایک محتاط اندازے کے مطابق بتا سکتا ہوں کہ یہ سینکڑوں میں ہی ہوں گے۔‘
 ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے مطابق ’ہمارے ہاں خواتین کو گواہ بنانے کا رواج ہے ہی نہیں اور اس کی ایک ہی بڑی وجہ ہے کہ ہمارا عدالتی نظام انتہائی ناہموار ہے۔ جہاں کہنے کو قوانین تو موجود ہیں لیکن عمل درآمد نہیں ہے۔ ویسے تو پوری دنیا میں گواہان کی حفاظت کا ایک جامع منصوبہ ہوتا ہے ہمارے ہاں بھی نام کی حد تک ہے۔ لیکن یہاں گواہ محفوظ نہیں ہیں، اسی وجہ سے واقعات میں جھوٹے گواہ ہوتے ہیں۔‘
عبدالصمد خان کے مطابق اب ایسا تو نہیں ہے کہ ’ہمارے ملک میں خواتین کی آنکھوں کے سامنے جرائم نہیں ہوتے۔ ایک خاتون کے سامنے کوئی جرم ہوا ہو تو اسے گواہ بنانے کی بجائے اس سے کہانی سن کے ایک نیا مرد گواہ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔‘

 ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے مطابق ’ہمارے ہاں خواتین کو گواہ بنانے کا رواج ہے ہی نہیں اور اس کی ایک ہی بڑی وجہ ہے کہ ہمارا عدالتی نظام انتہائی ناہموار ہے‘ (فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے بتایا کہ قانونی اور اخلاقی طور پر یہ ایک جھوٹی گواہی ہے لیکن ہمارے معاشرتی اور قانونی نظام میں جھوٹی گواہی ہی چلتی ہے۔ لوگ خواتین کو عدالتوں میں لے کر نہیں آتے اور اس کے نتیجے میں ہم ایک بوسیدہ عدالتی نظام میں تبدیل ہو چکے ہیں، جہاں بیشتر گواہیاں جھوٹی اور مقدمات بھی جھوٹے ہوتے ہیں۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب عبدالصمد خان نے عدالتوں میں جھوٹی گواہیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اردو نیوز کو مزید بتایا کہ ’جب آپ کو پتا ہے کہ جرم ایک شخص نے کیا ہے لیکن آپ نے ساتھ تین، چار بے قصور ملوث کر دیے تو ملاوٹ تو اسی وقت ہی شروع ہو گئی۔ آگے گواہ بھی مرضی کے بنا لیے تو ہمارا عدالتی نظام انہی بنیادوں پر کھڑا ہے۔‘
ان کے بقول’یہی وجہ ہے کہ انصاف کی کوالٹی بھی نہیں ہے اور نہ ہی زیر التوا مقدمات میں کمی آئے گی۔ جب تک کوئی سنجیدہ اصلاحات نہیں کی جاتیں یہ سائیکل چلتا رہے گا اور یہ خالی پنجاب کی بات نہیں ہے، دیگر صوبوں اور پورے ملک کا یہی حال ہے۔
پاکستان کے قانون شہادت کے مطابق گواہان کی تخصیص صرف عمر کی لحاظ سے کی جاتی ہے۔ 12 سال سے کم عمر کا گواہ چائلڈ وٹنس کے زمرے میں آتا ہے جس پر جرح براہ راست عدالت خود کرتی ہے۔ جبکہ اس سے زائد عمر کا گواہ صنفی امتیاز کے بغیر کسی بھی مقدمے میں گواہ ہو سکتا ہے۔

شیئر: