Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد کا نیا ایئرپورٹ بنے تین سال ہوگئے مگر پبلک ٹرانسپورٹ کا آغاز نہ ہو سکا

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے نئے بین الااقوامی ایئرپورٹ کو آپریشنل ہوئے تین سال گزر چکے ہیں لیکن یہاں پر مسافروں کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا آغاز نہیں کیا جا سکا۔
اگرچہ زیادہ تر مسافر ایئرپورٹ آنے جانے کے لیے ذاتی ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں، لیکن بہت سے مسافر اور ایئرپورٹ کا عملہ ایسا ہے جو زیادہ آمدن نہ ہونے کی وجہ سے ذاتی ٹرانسپورٹ یا مہنگی پرائیویٹ ٹیکسی کے اخراجات ادا نہیں کر سکتا اور انہیں یہاں آمدورفت کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دوسری طرف ایئرپورٹ پر آنے والے مسافروں اور عملے کو سہولیات فراہم کرنے والے ادارے ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا رہے ہیں اور اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی پیش رفت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
وفاقی دارالحکومت کی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت ایئرپورٹ کے لیے کوئی روٹ نہیں چل رہا۔
اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ’ایئرپورٹ حکام وہاں ٹرانسپورٹ اڈہ قائم کرنے کے لیے جگہ فراہم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔‘
اسلام آباد کی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے مطابق ’ایئرپورٹ سے پبلک روٹس کے اجرا کی متعدد کوششیں کی گئیں، اور تمام کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔‘
’کیونکہ ایئرپورٹ حکام کا کہنا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے جگہ فراہم کرنا سکیورٹی رسک ہے اور وہ اپنی حدود میں یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے۔‘

 ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں اور ایئرپورٹ عملے کو مشکلات کا سامنا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

تاہم ایئرپورٹ کے انتظامات دیکھنے والی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان کے مطابق ’وہ خود ایئرپورٹ سے ایک شٹل سروس شروع کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے متعلق اخبارات میں دو بار اشتہارات دینے کے باوجود کسی کمپنی نے اس میں دلچسپی ظاہر نہیں کی، جس کی وجہ سے یہ کوشش ناکام ہو گئی ہے۔‘
تاہم ترجمان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اس امر سے لاعلمی کا اظہار کیا کہ ’اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ یہاں عوامی روٹ کا اجرا کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے ایئرپورٹ پر جگہ کی فراہمی کا تنازع ہے۔‘
ایئرپورٹ کے آغاز کے وقت یہاں سے میٹرو بس سروس کے اجرا کی منظوری بھی دی گئی تھی اور گذشتہ دور حکومت میں اس پر کافی کام ہوا تھا۔ لیکن نئی حکومت کے آتے ہی یہ کام معطل ہو گیا اور گذشتہ تین سال سے اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
حال ہی میں وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) نے میٹرو پراجیکٹ کا چارج نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے لیا ہے اور اب وزیراعظم نے اس کی تکمیل کی ذمہ داری سی ڈی اے کو منتقل کی ہے۔
اس سلسلے میں سی ڈی اے کے متعلقہ پراجیکٹ ڈائریکٹر قاضی عمر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’انہوں نے میٹرو بس سروس کا کنٹرول لینا شروع کر دیا ہے لیکن اس سروس کے اجرا کے لیے کوئی حتمی ٹائم فریم دینا قبل از وقت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس سروس کی نگرانی کے لیے حکومت ایک نیا ادارہ قائم کر رہی ہے اور وہ ادارہ ہی یہ سروس چلائے گا۔

قاضی عمر کا کہنا ہے میٹرو پراجیکٹ پر رکا ہوا کام ایک ماہ بعد شروع ہو گا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

’ہماری ذمہ داری پراجیکٹ کا بقیہ کام مکمل کرنا ہے۔ اس کی تکمیل کے بعد ہم اس کو مجوزہ کیپیٹل ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے سپرد کر دیں گے اور وہ اتھارٹی ہی اس سروس کو چلانے کا انتظام کرے گی۔‘
قاضی عمر نے بتایا کہ میٹرو پراجیکٹ پر رکا ہوا کام ایک ماہ بعد شروع ہوگا اور اس سال دسمبر میں اس کے مکمل ہونے کی امید ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کو سونپے گئے کام میں تقریبا تیس بسوں کی خریداری اور بس سروس کے لیے ایک کمانڈ اینڈ کنٹرول روم کی تیاری بھی شامل ہے۔
انہوں نے توقع ظاہر کی کہ ’دسمبر میں پراجیکٹ کی تکمیل کے ساتھ ہی بس سروس کا اجرا کر دیا جائے گا۔‘
لیکن بس سروس کے اجرا تک ایئر پورٹ آنے جانے والے سینکڑوں مسافروں اور عملے کے اراکین کو آمدورفت میں حائل مشکلات سہنا پڑیں گی۔
یہ مشکلات سہنے والوں میں سے ایک محمد پرویز بھی ہیں جو اسلام آباد ائر پورٹ پر ایک نچلے درجے کے ملازم ہیں۔
محمد پرویز روزانہ اپنی ڈیوٹی پر آنے اور واپس جانے کے لیے دو گھنٹے صبح اور دو گھنٹے شام سڑکوں پر لوگوں سے لفٹ مانگتے گزارتے ہیں۔
وہ اسلام آباد کے نواحی علاقے ترنول میں رہتے ہیں اور ڈیوٹی پر پہنچنے کے لیے صبح سویرے گھر سے نکلتے ہیں۔ 

مسافروں کو ایئرپورٹ آنے اور جانے کے لیے مہنگی پرائیوٹ ٹیکسیاں استعمال کرنی پڑتی ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میں روزانہ سڑک پر آ کر مختلف لوگوں سے فریاد کرتا رہتا ہوں کہ مجھے لفٹ دے دیں۔ میرے دو گھنٹے اسی میں ضائع ہو جاتے ہیں اور میں ڈیوٹی سے بھی لیٹ ہو جاتا ہوں۔‘
محمد پرویز نے کہا کہ ’ہمارا حکومت سے یہی مطالبہ ہے کہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں، بس ایئرپورٹ پر ٹرانسپورٹ چلا دیں تاکہ امیر، غریب سب آسانی سے یہاں پر آ اور جا سکیں۔‘
ملائیشیا سے واپس آنے والے ایک اوورسیز پاکستانی واجد خان جہاز سے اترنے کے بعد ایئر پورٹ کی پارکنگ میں گھر جانے کے لیے گاڑی کی تلاش میں تھے۔
واجد ملائیشیا میں فرنیچر کا کام کرتے ہیں اور چھٹی منانے کے لیے گھر آئے تھے۔ ان کو لینے کے لیے آنے والی گاڑی راستے میں خراب ہو گئی تھی اور اب انہیں یہاں ایسی پبلک ٹرانسپورٹ کی تلاش تھی جو انہیں کم کرائے میں گھر تک لے جائے۔
انہوں نے اپنی اس مشکل پر اردو نیوز کو کہا کہ ’باہر تو آپ جہاز سے اترتے جائیں تو آپ کو ایک سیکنڈ کے لیے بھی پیدل نہیں چلنے دیتے۔ جہاز سے اترنے سے پہلے ہی بس کھڑی ہوتی ہے۔‘
’یہاں پر بھی پبلک ٹرانسپورٹ ہونی چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کا انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے۔‘
 

شیئر: