Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں 47 فیصد بچوں کو انٹرنیٹ پر ہراسیت کا سامنا

نٹرنیٹ کے رحجان نے 40 فیصد بچوں کے سکول کی کارکردگی پر منفی اثر ڈالا ہے۔ (فوٹو: شٹر سٹاک)
21ویں صدی نے والدین کو بے شمار نئے چیلنجز پیش کیے ہیں جن میں سے ایک انٹرنیٹ پر ہراسیت بھی شامل ہے۔ یہ بچوں اور نوعمروں میں تناؤ اور افسردگی کا باعث بن سکتا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سائبر سکیورٹی کمپنی ’کاسپرسکی‘ کے ’ذمہ دار ڈیجیٹل پیرنٹنگ‘ سروے میں 51 فیصد سعودی والدین نے دعوی کیا ہے کہ انٹرنیٹ پر ہراسیت ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کیونکہ انٹرنیٹ کے رحجان نے 40 فیصد بچوں کے سکول کی کارکردگی پر منفی اثر ڈالا ہے۔
36 فیصد بچوں میں یہ معاشرتی تنہائی کا باعث بنا ہے۔ 33 فیصد بچوں کے تناؤ میں اس نے اضافہ کیا ہے۔ جبکہ اس کی وجہ سے 31 فیصد بچوں کے اعتماد میں کمی اور 28 فیصد کی افسردگی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں تک کہ 22 فیصد بچے وزن میں اضافے کے خوف کا بھی شکار ہو گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب میں 47 فیصد بچوں کو کسی نہ کسی شکل میں انٹرنیٹ پر ہراسیت کا سامنا ہے۔
اس حوالے سے کاسپرسکی نیٹ ورک کے چائلڈ سیفٹی کے سربراہ آندرے سیڈنکو کا کہنا ہے کہ ’ڈیجیٹل زمین والدین کے لیے ایک انوکھا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔‘
’کیونکہ خطرات اکثر پوشیدہ ہوتے ہیں اور بچے ہمیشہ اس بات کا انکشاف نہیں کرتے کہ ان کے ساتھ آن لائن کیا ہوا ہے۔‘
آن لائن دنیا کے خطرات پر موثر اور صحت مند انداز میں گفتگو کے لیے عرب نیوز نے کچھ سعودی والدین اور بچوں سے بات کی ہے
اس حوالے سے 28 سالہ مکینیکل انجینیئر نواف البحی جن کی ایک آٹھ سالہ بہن ہے، کا کہنا ہے کہ اس عمر کے بچوں کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال مناسب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں اسے (اپنی بہن کو) ایسی گیمز کھیلنے کی اجازات دیتا ہوں جو اس کی عمر کے حساب سے موزوں ہوں۔ اس کے علاوہ میں نے اسے فیس ٹائم پر اپنے سات سالہ کزن سے بات کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔‘
’لیکن میں کسی اور سے بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ میں نہیں جانتا کہ دوسرے لوگوں نے اپنے بچوں کی پرورش کیسے کی ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ بری زبان اور دوسری چیزیں سیکھے۔‘
ڈاکٹر ماجدہ غریب جو انفارمیشن سائنس کی ایسوی ایٹ پروفیسر ہیں، ان خدشات کو دیکھا اور سنا ہے جو ایپلی کیشنز اور آن لائن گیمز کے راغب کرنے والے اشتہارات کے پھیلاؤ سے پیدا ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’جب ان کے بچے موبائل فونز یا ٹیبز استعمال کرتے ہیں تو وہ ان پر کڑی نظر رکھتی ہیں۔‘
’میں پہلے ہی ان کے ساتھ انٹرنیٹ کی اچھی اور بری چیزوں پر بات کر چکی ہوں۔ اس وقت کچھ پریشانی ہوئی جب میرے 12 سالہ بیٹے نے ٹک ٹاک کا استعمال شروع کیا، مگر شکر ہے کہ وہ مجھے اسلامی ویڈیوز بھیجتا ہے اور صرف کھانے کی ویڈیوز دیکھتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’والدین کو لازمی طور پر بچوں کا آن لائن وقت محدود کرنا چاہیے اور ان سے کھل کر گفتگو کرنی چاہیے۔‘
ڈاکٹر ماجدہ غریب کے 12 سالہ بیٹے عبدالمجید المغربی نے ایسی صورتحال سے بچنا سیکھا ہے جو وہ غلظ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا ’جب میں فورٹ نائٹ گیم کھیلتا ہوں اور کوئی مجھے سے غلط بات کرتا ہے تو میں فورا ہی گیم بند کر کے دوسری کھول لیتا ہوں۔‘

شیئر: