Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'ہراسانی روکنے کے لیے قوانین بنائیں گے'

نجی سکول میں ہراسانی کیس کی اعلیٰ ترین پولیس افسران انکوائری کر رہے ہیں (فوٹو: پکسابے)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے ایک نجی سکول میں طالبات سے جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق صوبائی دارالحکومت کے اعلیٰ ترین پولیس افسران اس معاملے کی انکوائری کر رہے ہیں۔ بچوں کے تحفظ کے سرکاری ادارے چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے ان واقعات پر ان چار اساتذہ کے خلاف مقدمہ بھی درج کروا دیا ہے جن کے خلاف ہراسانی کے الزامات لگے تھے۔
ایسے میں پنجاب کی وزارت تعلیم مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم مراد راس نے اس موضوع پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم بڑی سنجیدگی کے ساتھ ایسے قواعد و ضوابط بنانے کی طرف بڑھ رہے ہیں جن سے بچوں کو سکولوں میں محفوظ ترین ماحول فراہم کیا جا سکے گا۔'
انہوں نے بتایا کہ ہم قانون سازی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور جلد ایک قابل عمل حل پیش کیا جائے گا۔ ’ہم اس حد تک جا رہے ہیں کہ نجی سکول اپنے اساتذہ کے کردار سے متعلق آگاہی رکھنے کے پابند ہوں گے اور سکولوں میں جنسی ہراسانی کے واقعات روکنے کے لیے حکومت جو ایس او پیز بنانے جا رہی ہے ان پر عمل نہ کرنے والے اداروں کو بند کر دیں گے۔'
مراد راس کہتے ہیں کہ کچھ جگہوں پر قانون سازی تو کچھ جگہوں پر جہاں قانون پہلے ہی موجود ہے وہاں ایس او پیز بنانے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے وزارت تعلیم چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے ساتھ مل کر کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پنجاب میں بچوں کے تحفظ کے ادارے چائلڈ پروٹیکشن بیورو سے اردو نیوز نے جب اس حوالے سے رابطہ کیا تو ادارے کی چیئرپرسن سارہ احمد نے بتایا کہ ہراسانی کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایس او پیز کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ ’ہم ہر سکول کو پابند کریں گے کہ وہ ایک چائلڈ پروٹیکشن کمیٹی بنائے جس میں انتظامیہ، اساتذہ، والدین اور طالب علموں کے نمائندے شامل ہوں گے۔'

مراد راس کا کہنا ہے کہ سکولوں میں بچوں کو تحفظ فراہم کریں گے (فوٹو: ٹوئٹر)

سارہ احمد کہتی ہیں کہ یہ وہ موضوع ہے جس پر اس سے پہلے کھل کر بات ہی نہیں ہوتی تھی۔ ’میں تو ایک ہاتھ آگے جاؤں گی۔ یہ جو کچھ لاہور گرامر سکول میں ہوا ہے جس کا پرچہ ہمارے ادارے نے اپنی مدعیت میں درج کروایا ہے ۔ یہ ہراسانی کے واقعات نہیں ہیں بلکہ یہ چائلڈ ابیوز کے زمرے میں آتا ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ ’سیدھی سی بات ہے ہراسانی تو بالغوں کی ٹرم ہے یعنی آپ نے کسی کو اس کی مرضی کے بغیر چھیڑا تو اس کو ہم ہراساں کرنا کہتے ہیں۔ بچوں کے معاملے میں مرضی یا نہ مرضی معنی ہی نہیں رکھتی، یہ سیدھا سیدھا زیادتی کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ بچے معلومات سے نتائج اخذ کرنے میں کافی دیر لگا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایل جی ایس کی بچیاں بھی تین چار سال خاموش رہیں۔'

ماہرین کے مطابق بچوں میں بولنے کے لیے اعتماد پیدا کیا جائے (فوٹو: اے ایف پی)

سارہ احمد سمجھتی ہیں کہ بچوں کو کھل کر بولنے دیے جانے کے لیے سکول کے اندر ہی ایسی طاقتور کمیٹی کا ہونا بہت ضروری ہے جس پر بچے مکمل اعتماد کر سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ قوانین کی اس ملک میں اتنی کمی نہیں جتنی قوانین کو لاگو کرنے کی ہے۔ اس وقت بھی سائبر کرائم سے لے کر سب سے پرانے قانون ٹیلی گراف ایکٹ تک تو ہمارے پاس ہیں بلکہ ابھی جو زینب بل سے تعزیرات پاکستان میں ترمیم کر کے بچوں سے زیادتی کرنے والوں کے لیے جو سزائیں رکھی گئی ہیں اس سے سخت سزا کیا ہو گی۔
'اس لیے اب ہم پہلے سے موجود قوانین کے نیچے ایس او پیز بنا کر ان پر عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں اور سکول کھلنے کے بعد بچوں کو نیا کلچر دیکھنے کو ملے گا۔'
خیال رہے کہ لاہور گرامر سکول نے ہراسانی کے واقعات سامنے آنے پر ان اساتذہ کو تو نوکری سے برخواست کر دیا ہے جن پر الزام عائد کیے گئے تھے، اور سکول نے اپنے فیس بک پیج پر نئے ترمیم شدہ قوانین بھی آویزاں کر دیے ہیں جو انتظامیہ کے مطابق ان واقعات کے تدارک کے لیے بنائے گئے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر سکول میں چائلڈ پروٹیکشن کمیٹی ہونی چاہیے (فوٹو: اے ایف پی)

ان نئے قوانین کے مطابق بچوں کی انٹرنیٹ تک رسائی محدود کر دی گئی ہے اور بچوں کی ذاتی معلومات کے نظام کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح سکول میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بچوں اور والدین کو ان واقعات سے بچاؤ کے طریقے بھی سکھائے جا رہے ہیں۔
تاہم چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی سربراہ سارہ احمد کہتی ہیں کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے، ابھی ہم سکول کی طرف سے لاگو کیے جانے والے قواعد کا مطالعہ کر رہے ہیں جو بظاہر نظر آرہا ہے ان میں بہت زیادہ بہتری کی ضرورت ہے۔
’ہمیں ان بچوں کا بھی خیال کرنا ہے جو انٹرنیٹ کے ذریعے مختلف طریقے سے اپنی شناخت بنا رہے ہیں۔ کسی کا فیس بک پیج ہے تو کسی کا یوٹیوب چینل، سو ایسے میں خیال رکھنا ہوگا کہ انٹرنیٹ پر پابندی سے ایسے بچے متاثر نہ ہوں۔'

شیئر:

متعلقہ خبریں