Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’من پسند اور امتیازی‘ برطانوی میڈیا پر یمن میں افریقی مہاجرین کو نظرانداز کرنے کا الزام

گارڈین اخبار نے آتشزدگی کے واقعے پر صرف دو مضامین شائع کیے جبکہ ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی مررر نے مکمل نظرانداز کیا۔ فوٹو عرب نیوز
برطانوی میڈیا کو مشرق وسطیٰ میں جنم لینے والے انسانی اور قدرتی سانحوں کو نظر انداز کرنے اور معمول کے واقعات کو اہمیت دینے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یمن کے دارالحکوت صنعا میں 7 مارچ کو افریقی مہاجرین کے حراستی کیمپ میں آتشزدگی کے سانحے کو برطانوی میڈیا نے نظر انداز کیا اور درجنوں انسانی جانوں کے ضائع ہونے کی کوئی خبر نہیں دی۔
حوثی باغیوں کے زیر انتظام چلنے والے مہاجرین کے کیمپوں کا موازنہ جرمن نازی حراستی کیمپوں سے کیا گیا ہے جہاں انتہائی برے حالات میں لوگوں کو رکھا ہوا ہے۔
افریقی مہاجرین کے کیمپ میں لگنے والی آگ کے باعث 43 افراد ہلاک ہوئے ہیں تاہم ہلاکتوں کی اصل تعداد کا اندازہ سینکڑوں میں کیا جا رہا ہے۔
آتشزدگی میں زندہ بچنے والوں کی شہادتوں کی بنیاد پر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سفارتکار ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کو سانحے کا ذمہ دار ٹھہرانے پر زور دے رہے ہیں۔
برطانوی میڈیا ویسے تو امریکہ میں سیاہ فام شہریوں کے مظاہروں کی کوریج کے علاوہ یمن میں جنگ کے متاثرین کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتا رہتا ہے، لیکن آتشزدگی کے حادثے میں ہلاک ہونے والے افریقی مہاجرین کو بالکل بھی توجہ نہیں دی گئی۔
یہاں تک کہ اقوام متحدہ اور ہیومن رائٹس واچ کے اعلیٰ حکام کا سانحے پر شدید غم و غصے کا اظہار بھی برطانوی صحافیوں کی توجہ حاصل نہ کر سکا، جس کے بعد برطانوی میڈیا کے دوہرے معیار پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا برطانوی میڈیا یمن میں ہونے والے واقعات کی صرف تب کوریج کرے گا جب سعودی عرب کے زیر قیادت اتحاد سے کوئی غلطی سرزد ہوگی۔

گارڈین اخبار نے سانحے کے ایک ہفتے بعد واقعے کی خبر شائع کی جب اقوام متحدہ نے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ فوٹو عرب نیوز

حوثیوں کے حراستی کیمپ میں آتشزدگی کا سانحہ کوئی معمول کا واقعہ نہیں ہے۔ ابتدائی طور پر حوثیوں نے آتشزدگی کی وجہ نہیں بتائی، نہ کسی احتجاج کا ذکر کیا اور نہ ہی متاثرین کی تعداد کے حوالے سے کچھ کہا گیا۔
حقیقت تب سامنے آئی جب بچنے والوں اور انسانی حقوق کی مقامی تنظیموں نے بتایا کہ آنسو گیس کے شیل گودام میں فائر کرنے کے باعث آگ لگی تھی۔ اس وقت حراستی کیمپ میں مہاجرین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف احتجاج جاری تھا جس پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
برطانوی کمیونیکیشن کنسلٹنٹ نے عرب نیوز کو بتایا کہ حوثیوں کے قبضے میں علاقوں سے رپورٹنگ کرنا مغربی صحافیوں کے لیے شیدید خطرے کا باعث ہوتا ہے، تاہم آتشزدگی کے واقعے پر ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ نے ثبوت پیش کیے ہیں اور عمل درآمد پر بھی زور دیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اور انڈپینڈنٹ نے آتشزدگی کے اگلے روز واقعے کی خبر شائع کی تھی جبکہ بی بی سی نے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں چھپنے والے حقائق کی بھی خبر دی تھی۔
اس کے برعکس گارڈین اخبار نے صرف تب توجہ دی جب سانحے کے ایک ہفتے بعد اقوام متحدہ نے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

سانحے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کا اندازہ سینکڑوں میں لگایا گیا ہے۔ فوٹو روئٹرز

جبکہ برطانوی اخبار دا ٹائمز نے آتشزدگی کے دس دن بعد واقعے کی خبر شائع کی، وہ بھی جب عرب نیوز نے حادثے کی بالکل کوریج نہ ہونے پر انتظامیہ کی توجہ مبذول کروائی۔
یمن کے وزیر اطلاعات معمر العریانی نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے انہی خدشات کا اظہار کیا کہ حوثی ملیشیا 2014 سے جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے میڈیا کی اس معاملے پر توجہ ناکافی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مغربی میڈیا حوثیوں کے جرائم بے نقاب کرنے میں ناکام ہو گیا ہے، انہیں متاثرین کے طور پر پیش کر رہا ہے، جبکہ حقیقت میں یہ قصوروار ہیں۔

شیئر: