Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فخر ایشیا عبدالخالق کے قدموں کے نیچے چھپی کہانیاں

یہ 1956 کے ایک روشن دن کا ذکر ہے۔ انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں دو پڑوسی ملکوں کے ایتھلیٹس کی ایک ریس ہو رہی ہے۔ 
200 میٹر کی اس دوڑ میں میزبان ملک انڈیا کے صف اول کے ایتھلیٹ لیوی پنٹو اور مکھن سنگھ آگے ہیں۔ اور ان میں سے کوئی ایک چند لمحوں میں ریس جیت سکتا ہے۔ جب ریس کے شرکا اوول شکل میں بنے مٹی کے ٹریک کا آخری موڑ مڑتے ہیں تو آخری 80 میٹر کی دوڑ میں لوگ منتظر ہیں کہ پینٹو یا مکھن سنگھ میں سے پہلے کون فنش لائن پر پہنچ کر اپنے ہاتھ فضا میں بلند کرکے فتح کا اعلان کرتا ہے۔
ان آخری 80 میٹرز کی دوڑ پلک جھپکنے میں ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن بھرے سٹیڈیم کے تماشائی، ریفری، منتظم اور وہاں موجود انڈیا کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں، کیونکہ فنش لائن سب سے پہلے عبور کرنے والے پینٹو یا مکھن سنگھ نہیں بلکہ ان سے کئی میٹرز پیچھے دوڑنے والے عبدالخالق تھے۔
وہاں کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ عبدالخالق نے یہ 80 میٹر دوڑ کر عبور کیے یا اڑ کر۔ یوں لگتا تھا جیسے عبدالخالق کے پاوں زمین پر لگے ہی نہ ہوں۔
اس مقابلے کے انعامات تقسیم کرتے وقت جواہر لال نہرو نے 23 مارچ 1933  کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال کے ایک چھوٹے سے گاؤں جنڈ اعوان میں پیدا ہونے والے اس خوبرو نوجوان کو ’فلائنگ برڈ آف ایشیا‘ کا خطاب دیا، جو آخری دم تک ان کے ساتھ رہا۔
دنیا کے لیے یہ مقابلہ جیتنا محض ایک کھلاڑی کی عظیم کارکردگی، یا روایتی حریفوں پاکستان اور بھارت کے شہریوں کی ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی ایک عظیم الشان مثال ہو سکتی ہے۔
لیکن اس اڑان کے پیچھے در حقیقت ایک دلچسپ کہانی تھی۔ 
یہ اس دور کی بات ہے جب پاکستان اور بھارت جیسے ملکوں میں دوڑنے کے مقابلے ہی کھیلوں کے بڑے مقابلے ہوا کرتے تھے۔ دونوں ملکوں کے حالات اتنے کشیدہ نہیں تھے جتنے کہ اب ہیں۔ اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ کھیلوں کے مقابلے منعقد کرتے تھے۔
اسی طرح کے ایک مقابلے کا اہتمام انڈیا نے 1956 میں نئی دہلی میں انڈیا پاکستان اتھلیٹک میٹ کے نام سے کیا۔
جب پاکستانی ٹیم اس مقابلے کے لیے وہاں پہنچی تو عبدالخالق 100 میٹر کی دوڑ کے ایک نامی گرامی ایتھلیٹ تھے اور دو سال قبل منیلا میں ایشیئن گیمز میں گولڈ میڈل جیت کر اپنے آپ کو دنیا میں رجسٹر کروا چکے تھے۔
اسی طرح انڈیا کے لیوی پنٹو 200 میٹر ریس میں مہارت رکھتے تھے اور اس کیٹیگری میں یہ مقابلہ جیتنے کے لیے بھی فیورٹ تھے۔ 
لیکن جب پاکستانی ٹیم نے دہلی کی سرزمین پر قدم رکھا تو وہاں کھلاڑیوں کے کمروں کے اندر اور شہر کے مختلف مقامات پر پمفلٹ بکھرائے گئے جن پر درج تھا کہ عبدالخالق 100 میٹرز دوڑ جیت جائیں گے جبکہ 200 میٹرز میں وہ انڈین اتھلیٹس پنٹو اور مکھن سنگھ کے قدموں کی خاک چاٹیں گے۔
خاک چاٹنے والا یہ جملہ اہمیت اختیار کر گیا کیونکہ اس وقت برصغیر میں دوڑیں مٹی کے ٹریکس پر ہوا کرتی تھیں اور پیچھے رہ جانے والے کھلاڑی در حقیقت آگے بڑھ جانے والوں کے قدموں کے نیچے سے اڑتی دھول اپنے چہروں اور منہ میں کھاتے تھے۔
عبدالخالق کو یہ جملہ پسند نہیں آیا۔

محمد اعجاز کے مطابق ’اس وقت ہمارے پاس ان کی صرف ایک میلبورن کی کسی دوڑ کی شیلڈ ا۔۔۔ موجود ہے۔‘ فوٹو بشکریہ: محمد اعجاز

ان کے ساتھ بہت سے بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے والے ان کے چھوٹے بھائی اولمپیئن عبدالمالک نے اردو نیوز کو بتایا کہ دوڑ میں ابھی دو تین دن باقی تھے لیکن عبدالخالق کے چہرے کے اتار چڑھاؤ میں ابھی سے شدت آگئی تھی۔
’وہ کمرے میں ٹہلتے رہتے اور ہر چند لمحوں بعد واش روم چلے جاتے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ یار دوڑ تو ابھی دو تین دن بعد ہے لیکن تم ابھی سے کیوں پریشان ہو رہے ہو تو انہوں نے کہا کہ یار انہوں (انڈین میزبانوں) نے میرے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ ان کو یہ الفاظ نہیں لکھنے چاہیے تھے۔ ان پر مجھے بہت غصہ ہے اور اس غصے کے دباؤ کی وجہ سے مجھے حقیقت میں پیچش لگ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب میں 200 میٹرز کی دوڑ بھی جیت کر دکھاؤں گا۔‘
اور پھر چند روز بعد سب نے دیکھا کہ عبدالخالق نے واقعی 200 میٹر دوڑ بھی جیت لی، اور ایسے جیتی کہ سبھی حیران رہ گئے۔
عبدالخالق کا شمار آج بھی پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 1952 سے 1964 تک اپنے 12 سالہ کیرئیر میں 36 سونے، 15 چاندی اور 12 کانسی کے تمغوں کے ساتھ کل 63 بین الاقوامی میڈلز جیتے۔ علاوہ ازیں انہوں نے ’ایشیا کے تیز ترین آدمی‘، ’فلائینگ برڈ آف ایشیا‘ اور ’یورپ میں ناقابل شکست آدمی‘ کے خطابات بھی حاصل کیے۔
عبدالخالق نے 1958 میں پاکستان اتھلیٹکس کا پہلا تمغہ حسن کا رکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس) بھی حاصل کیا۔ 

’اب ذرا زور لگا کے دوڑنا‘

چار سال بعد یعنی 1960 میں انڈیا پاکستان اتھلیٹک میٹ لاہور میں منعقد ہوئی۔ ان میں اس وقت انڈیا کے صف اول کے ایتھلیٹ ملکھا سنگھ، جن پر بعد میں بالی وڈ کی ایک فلم بھی بنی، ہر کسی کی توجہ کے مرکز تھے، کیونکہ وہ اس وقت عروج پر تھے، متعدد ریکارڈز اپنے نام کر چکے تھے اور توقع کی جا رہی تھی کہ وہ عبدالخالق جن کا کیرئیر اس وقت ڈھلوان پر آچکا تھا کو 200 میٹرز میں پچھاڑ دیں گے۔ 
اور ہوا بھی یہی۔ ملکھا سنگھ نے یہ ریس محض چند ثانیوں کے فرق سے جیت لی۔ 
اولمپیئن عبدالمالک کے مطابق عبدالخالق نے اس ریس میں بھی اپنے بہترین وقت کے اندر 200 میٹرز عبور کیے لیکن ملکھا سنگھ چند لمحوں کے فرق سے فاتح قرار پائے۔
اس کے اگلے ہی روز ’4x100 ریلے ریس‘ تھی جس میں چار کھلاڑی باری باری دوڑتے ہیں اور اپنا مقررہ فاصلہ طے کرنے کے بعد ریس ایک ’بیٹن‘ کے ذریعے اگلے کھلاڑی کو سونپ دیتے ہیں۔
عبدالخالق کے بیٹے محمد اعجاز نے اس ریس کی یادیں تازہ کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ اس ریس میں پاکستان ٹیم کے آخری کھلاڑی جنہوں نے فنش لائن تک جانا تھا، عبدالخالق تھے۔ جبکہ بھارت کی طرف سے بیٹن تھامنے والے آخری کھلاڑی ان کو ایک دن پہلے ہرانے والے ملکھا سنگھ تھے۔ 
محمد اعجاز کے مطابق عبدالخالق نے اس ریس کے لیے ملکھا سنگھ کو چیلنج دیا کہ ’اب ذرا زیادہ زور لگا کے دوڑنا‘ اور پھر اپنی پوری قوت سے دوڑنا شروع کیا اور فنش لائن سے پہلے ہی ملکھا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ریس جیت کر گذشتہ روز کی شکست کا بدلہ لے لیا۔  

1960 میں انڈیا پاکستان اتھلیٹک میٹ ہوئی جس میں ملکھا سنگھ، جن پر بعد میں بالی وڈ کی ایک فلم بھی بنی، ہر کسی کی توجہ کا مرکز تھے۔ فوٹو؛ سکرین گریب

لڈی ڈال کر میڈل کی وصولی

1954 میں فلپائن کے شہر منیلا میں دوسرے ایشیئن گیمز منعقد ہوئے۔ عبدالخالق نے ان گیمز میں ایک طلائی اور ایک چاندی کا تمغہ جیتا۔ لیکن ان کی فتح کے موقع پر دو دلچسپ واقعات ہوئے۔
چونکہ پاکستان کو ابھی وجود میں آئے ہوئے محض سات سال ہی ہوئے تھے لہٰذا بیرونی دنیا میں کئی لوگ پاکستان کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔ محمد اعجاز بتاتے ہیں کہ عبدالخالق نے جب پاکستان کی شرٹ کے ساتھ 100 میٹر ریس جیتی تو کمنٹیٹرز سمجھے کہ ریس جیتنے والے ایتھلیٹ کی شرٹ پر کنندہ نام پاکستان اس ایتھلیٹ کا ہے۔ سو انہوں نے اعلان کیا کہ ’مسٹر پاکستان‘ ریس جیت گیے ہیں۔ جس کی تصحیح عبدالخالق نے بعد ازاں اپنے انٹرویو میں کی کہ پاکستان ان کا نہیں بلکہ ان کے ملک کا نام ہے۔
اس سے بھی زیادہ دلچسپ صورتحال اس وقت پیش آئی جب وہ گولڈ میڈل لینے گیے تو انتظامیہ کے پاس پاکستان کا قومی ترانہ موجود نہیں تھا۔ لہٰذا پاکستان کی شناخت متعارف کروانے کے لیے ان کی ٹیم کے دیگر ساتھیوں نے ان کے میڈل وصول کرتے وقت فلپائن کی موسیقی پر لڈی ڈال کر جشن منایا۔ 

میڈلز چوری ہو گئے

محمد اعجاز کے مطابق اس وقت ان کے پاس ان کے والد کا جیتا ہوا کوئی بھی میڈل موجود نہیں ہے کیونکہ جس بکسے میں انہوں نے یہ سارے اعزازات سنبھال کر رکھے ہوئے تھے وہ ایک مرتبہ دوران سروس کوئٹہ سے راولپنڈی آتے ہوئے ٹرین میں چوری ہو گیا۔
ان کے مطابق ان کے والد نے اس بکسے کی تلاش کے لیے کوئی کوشش نہیں کی کیونکہ ان کے لیے میڈلز کی موجودگی ثانوی حیثیت رکھتی تھی۔
’ہمارے والد اور خاندان کے نزدیک یہ چیزیں نمود و نمائش کا ذریعہ تھیں جس کا انہیں کوئی شوق نہیں تھا۔ وہ ان باتوں پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ اکثر مقامی کبڈی میچوں میں جیتی گئی انعامی رقم بھی اپنی جیت کا جشن منانے والوں میں بانٹ دیتے تھے۔‘
’اس وقت ہمارے پاس ان کی صرف ایک میلبورن کی کسی دوڑ کی شیلڈ اور ایک ان کی فوجی یونٹ کے کسی مقابلے کی شیلڈ موجود ہے۔‘

لاکھوں امریکی ڈالرز کی پیشکش

محمد اعجاز نے جنڈ اعوان میں اپنے آبائی گھر جہاں ان کے والد کی پیدائش ہوئی تھی میں اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ ان کو ایک جرمن کلب سے دوڑنے کے بدلے سالانہ دو لاکھ ڈالر معاوضے کی پیشکش ہوئی جس کو انہوں نے یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کہ وہ صرف اپنے ملک کے لیے دوڑیں گے۔
عبدالخالق اورعبدالمالک کے خاندان میں ان دو اولمپئین بھائیوں کے علاوہ مختلف کھیلوں سے وابستہ سات قومی کھلاڑی ہیں۔ لیکن وہ آج بھی گاؤں کے انہی گھروں میں رہتے ہیں جو ان کے والدین نے بنائے تھے اور مکمل دیہاتی زندگی گزار رہے ہیں۔
گاؤں کے لوگوں کے مطابق حکومت نے عبدالخالق کی ان عظیم الشان خدمات کے بدلے میں ان کا بالکل خیال نہیں رکھا۔

1960 میں انڈیا پاکستان اتھلیٹک میٹ لاہور میں ملکھا سنگھ چند لمحوں کے فرق سے فاتح قرار پائے۔ فوٹو: اردو نیوز

مربعے بیچ دیے

لیکن محمد اعجاز بتاتے ہیں کہ ان کے والد نے کبھی حکومت سے کوئی مراعات لینے کی خواہش نہیں کی۔ 
’ایک مرتبہ حکومت کی طرف سے ان کو خط آیا کہ آ کر اپنی زرعی زمین کا رقبہ، جو حکومت ان کو ان کی خدمات کے اعتراف میں دے رہی تھی،  وصول کر لیں۔  لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ پھر دوسری دفعہ خط آیا تو پھر بھی وہ نہیں گیے۔ تیسری مرتبہ جب حکومت کی طرف سے چٹھی آئی تو ان کو ہماری دادی جن کی وہ کوئی بات نہیں ٹالتے تھے، نے سختی سے کہا کہ جا کر یہ زمین لے لو۔ وہ گیے اور کچھ دنوں بعد واپس آ کر بتایا کہ وہ یہ (زمین کے) مربعے بیچ آئے ہیں۔ جب ہم نے پوچھا کیوں تو وہ کہنے لگے کہ وہ مربعے دور دراز سندھ میں الاٹ کیے گیے تھے جہاں مقامی لوگ تمہیں برداشت نہ کرتے اور میں نہیں چاہتا کہ تم لوگ زمین کے ٹکڑوں کے لیے مارے جاو۔‘ 

جب عبدالخالق انڈیا کے جنگی قیدی بنے

محمد اعجاز کہتے ہیں کہ 1971 کی جنگ میں سیالکوٹ سیکٹر میں اپنے یونٹ کی طرف سے لڑتے ہوئے عبدالخالق انڈیا میں چار کلومیٹر اندر تک گھس گئے۔
’ان کے ساتھ 36 جوان اور تھے۔ کافی اندر تک جانے کے بعد انہوں نے اپنے پیچھے سے فائر مانگا لیکن اس فائرنگ کے شروع ہونے میں تاخیر ہو گئی۔ اس دوران انہیں انڈین ٹینکوں نے گھیر لیا اور ان کے آدھے ساتھیوں کو ہلاک کرنے کے بعد باقی ماندہ فوجیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔‘
عبدالخالق کو بعد ازاں انڈین حکومت نے رہائی کی پیشکش کی جس کو انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ رہا ہونا پسند کریں گے۔ 

عبدالخالق کا کورٹ مارشل

دوران قید عبدالخالق کی اپنے کسی سینیئر کے ساتھ لڑائی ہو گئی جس کی رپورٹ پاکستان میں فوجی حکام کو دی گئی۔ جب عبدالخالق دیگر ساتھیوں کے ساتھ رہا ہو کر آئے تو ان کا کورٹ مارشل کردیا گیا۔ عبدالخالق نے اس کے خلاف اپیل کر دی جس کے بعد یہ احکامات ختم کر دیے گیے اور ان کو باقاعدہ ریٹائرمنٹ دی گئی۔

جب اولمپیئن بھائیوں میں ’جھگڑا‘ ہوگیا

عبدالمالک بتاتے ہیں کہ روم المپکس سے قبل ان کو خدشہ پیدا ہو گیا کہ ان کو ان کے ایونٹ میں اولمپکس میں شرکت سے روکا جا سکتا ہے۔ جس پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ عبدالخالق کے 100 میٹر دوڑ کے ٹرائلز میں حصہ لیں گے تاکہ ان مقابلوں میں بھی بہتر کارکردگی دکھا کر اپنی جگہ مستحکم کر سکیں۔ 
’جب دوڑ ہوئی تو حسب معمول عبدالخالق جیت گئے اور میں چند ثانیوں کے فرق سے پیچھے رہ گیا۔ لیکن میں نے دعویٰ کر دیا کہ ریس میں جیتا ہوں۔ جب کہ عبدالخالق حقیقی طور پر فتح کے دعویدار تھے۔ اس پر تحقیقات کی گئیں تو ثابت ہو گیا کہ میں ہار گیا تھا۔ لیکن اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس بریگیڈیئر رادھم کو پتہ چل گیا کہ میں سلیکشن کے لیے جان بوجھ کر جھگڑا کر رہا ہوں تو انہوں نے مجھے کہا کہ تم پریشان نہ ہو، اولمپکس کے لیے نمبر ون اور ٹو آنے والے دونوں بھائی جائیں گے۔‘ 

عالم نزاع میں ماں کی تابعداری

محمد اعجاز کہتے ہیں کہ عبدالخالق اپنی والدہ کے بہت تابعدار تھے۔ 
’جب 10 مارچ 1988 کو راولپنڈی کے سی ایم ایچ ہسپتال میں بستر مرگ پر وہ اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے تو گھبراہٹ کے عالم میں ان کی والدہ نے ان کو پکارا۔ دو مرتبہ ان کے پکارنے پر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا تو تیسری مرتبہ انہوں نے زور سے انہیں پکارا۔ جس پر انہوں نے کہا کہ ’جی بے جی‘ اور اس کے ساتھ ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔‘

’کاش کرکٹ ہمارے دور میں ہوتی‘

عبدالمالک کہتے ہیں کہ ان دونوں بھائیوں نے زندگی مطمئن اور خوش ہو کر گزاری ہے اور انہیں کسی چیز سے پچھتاوا نہیں ہے۔ تاہم ایک حسرت ضرور ہے کہ اگر آج کل کھیلے جانے والی کرکٹ ان کے زمانے میں ہوتی تو وہ دونوں بھائی پوری دنیا میں کسی کو آگے نہ نکلنے دیتے۔

شیئر: