Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شکایات کے بعد حکومت کا گھروں کے لیے قرضے میں نئی آسانیوں کا اعلان

گزشتہ برس اکتوبر میں وزیراعظم عمران خان نے ہاؤسنگ قرضہ سکیم کا اعلان کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے چھوٹے گھروں کے لیے رعایتی قرضوں کی سکیم کے اعلان کے باوجود بینکوں کی سخت شرائط کے باعث ملک بھر سے بہت کم درخواستیں آنے پر حکومت نے جمعرات کو ان قرضوں کے لیے نئی آسانیوں کا اعلان کیا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ملک کے کئی شہروں سے درجن بھر سے زائد افراد نے تصدیق کی کہ انہوں نے مختلف بینکوں سے اپنے گھر کے لیے وزیراعظم کی سکیم کے تحت قرض لینے کے لیے رجوع کیا، تاہم شرائط سخت ہونے کے باعث ان کی درخواستیں منظور نہیں ہو سکیں۔
تاہم جمعرات کو سٹیٹ بینک کی جانب سے  پاکستان کے تمام بینکوں کو مراسلہ بھیجا گیا ہے جس میں ہدایت کی گئی ہے کہ سستے گھروں کے قرض کو آسان بنانے کے لیے حکومتی ہدایات پر عمل کیا جائے۔
مراسلے کے مطابق حکومت نے اس سلسلے میں ہاؤسنگ سبسڈی پر نظرثانی کرتے ہوئے ہاؤسنگ مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق شرائط نرم کر دی ہیں۔

نئی شرائط میں کیا آسانیاں پیدا کی گئی ہیں؟

اب سستے گھروں کی حکومتی سکیم کے تحت قرض لینے والوں کی تین کیٹیگریز بنا دی گئی ہیں۔
زیرو ٹیئر کے نام سے ایک نئی کیٹیگری شامل کی گئی ہے جس کے تحت مائیکرو فنانس بینکوں کو بھی سکیم میں شامل کر دیا گیا ہے جو کہ گھروں کے لیے 20 لاکھ تک کا سستا قرض جاری کریں گے۔ چونکہ یہ بینک کم آمدنی والے لوگوں کو قرض دینے میں مہارت رکھتے ہیں اس لیے امید کی جا رہی ہے کہ ان کی شمولیت سے انتہائی غریب افراد بھی سکیم کے دائرے میں آ جائیں گے۔

پانچ مرلہ گھر کے لیے شرح سود تین فیصد تک

اس کے ساتھ ساتھ نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی سے پانچ مرلہ رقبے اور 850 مربع فٹ پر تعمیرات والے گھر خریدنے والے افراد کے لیے شرح سود کو پہلے پانچ سال کے لیے پانچ فیصد سے کم کر کے تین فیصد تک کر دیا گیا ہے جبکہ اگلے پانچ سال کے لیے شرح سود کو سات فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد کر دیا گیا ہے۔ جس سے غریب افراد کے لیے قسط کم ہو جائے گی۔

اوپن مارکیٹ سے پانچ مرلے کا گھر یا 1250 مربع فٹ کا فلیٹ خریدنے والوں کو ٹیئر ٹو میں رکھا گیا ہے (فوٹو: فری پک)

بنے بنائے گھر یا فلیٹ خریدنے کے لیے نوتعمیر نئی تعمیر کی شرط ختم، قرض کی مقدار ڈبل

ایسے افراد جنہوں نے نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے علاوہ اوپن مارکیٹ سے گھر خریدنا تھے، ان کے لیے پہلے یہ شرط عائد تھی کہ گھر بالکل نیا ہو اور اسے تعمیر ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ نہ ہوا ہو۔ اب یہ شرط مارچ 2023 تک کے لیے ختم کر دی گئی۔
اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مارکیٹ میں اتنی تعداد میں نئے گھر ابھی موجود ہی نہیں کہ لوگ اس سکیم کے تحت خرید سکیں۔ اس کے علاوہ یہ شرط بھی ختم کر دی گئی ہے کہ گھر پہلے کسی اور کو فروخت نہ ہوا ہو۔
اوپن مارکیٹ سے پانچ مرلے کا گھر یا 1250 مربع فٹ کا فلیٹ خریدنے والوں کو ٹیئر ٹو میں رکھا گیا ہے۔
اس کیٹیگری والے افراد کو پہلے صرف 30 لاکھ تک کا قرض مل سکتا تھا مگر اب وہ 60 لاکھ تک قرض لے سکتے ہیں۔ اب پانچ مرلے کے گھر کے لیے تعمیراتی ایریا کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔
دوسری طرف 10 مرلے کے گھر یا 2000 مربع فٹ کے فلیٹ خریدنے والوں کو ٹیئر ٹو میں رکھا گیا ہے۔ ایسے افراد کے لیے پہلے صرف پانچ لاکھ تک قرض دستیاب تھا اب اسے 10 لاکھ تک کر دیا گیا ہے۔ 10 مرلے کے گھر کے لیے بھی تعمیراتی ایریا کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔

قرض کی کم سے کم مدت پانچ سال مقرر

اس سے قبل اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والے افراد کے لیے لازم تھا کہ کم سے کم 10 سالہ قرض پروگرام حاصل کریں۔ تاہم اب ایسے افراد جو قرض جلد ختم کرنا چاہتے ہیں، کے لیے آسانی پیدا کر دی گئی ہے کہ وہ پانچ سال میں بھی ادا کر سکتے ہیں۔ اس مدت میں کمی کے باوجود ایسے افراد کے لیے شرح سود میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔
نئی رعایتوں کے بعد حکومت کی سبسڈی کی رقم بھی 36 ارب روپے ہو گئی ہے جو کہ پہلے 30 ارب روپے تھی۔ اس رقم سے صارفین کا بقیہ سود حکومتی خزانے سے ادا کیا جائے گا۔

سٹیٹ بینک نے بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ سستے گھروں کے قرض کو آسان بنانے کے لیے حکومتی ہدایات پر عمل کیا جائے (فوٹو: اے ایف پی)

قرض سکیم کے لیے درخواستوں دینے والوں کی تعداد کم کیوں؟ 

اس سے قبل اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شہریوں کی بڑی تعداد کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے سکیم کا اعلان تو کر دیا گیا مگر جب وہ قرض لینے بینک جاتے ہیں تو انہیں حیلوں بہانوں کے علاوہ ایسی کڑی شرائط بتائی جاتی ہیں کہ وہ مایوس ہو کر دوبارہ بینک کا رخ ہی نہیں کرتے۔
کراچی کے شہری محمد یاسر جو کہ ایک پبلک ریلیشن فرم میں کام کرتے ہیں، نے 50 لاکھ کا قرض لینے کے لیے بینک کا فارم بھرا تھا تاہم انہیں بینک کی جانب سے کہا گیا کہ آپ جو گھر لینا چاہتے ہیں اس کے کاغذات جیسے رجسٹری وغیرہ لے کر آئیں۔
ان کے مطابق ’جعل سازی کے خدشے کے پیش نظر کوئی اپنی رجسٹری تو فوٹو کاپی دینے کو تیار نہیں۔‘
محمد یاسر کے مطابق بینکوں کو چاہیے کہ وہ خود کوئی ایسے کاغذات جاری کریں جس سے مالکان کو اطمینان ہو کہ خریدار بینک سے قرض لینے کا اہل ہے اور وہ اسے کاغذات دینے پر رضامند ہو جائیں۔
لاہور کے صحافی بلال عظیم نے بتایا کہ انہوں نے اس سال یکم جنوری کو درخواست دی تھی، وہ آج تک منتظر ہیں لیکن بینک کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔
ٹوئٹر صارف عبداللہ وہاب کا کہنا تھا کہ انہوں نے دو بینکوں سے قرض کے لیے رابطہ کیا مگر وہاں جا کر پتا چلا کہ ان کی شرائط ہی الگ ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’آپ جو مرضی کر لیں، انہوں نے قرضہ نہیں دینا۔ میری 15 لاکھ کی بینک سٹیٹ منٹ تھی پھر بھی قرض نہیں منظور ہوا۔‘
کامران شفقت جو فیصل آباد کی ایک پرائیویٹ فرم میں کام کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’وہ پتا کرنے بینک گئے تو انہیں کہا گیا کہ تین مرلے کا ایسا گھر جس کی رجسٹری ہو وہ لائیں۔ شرط یہ ہے کہ گھر کو بنے ایک سال سے زیادہ عرصہ نہ ہوا ہو۔ انہوں نے بتایا کہ ’میری تنخواہ 45 ہزار ہے۔ میری تنخواہ کے حساب سے 20 لاکھ قرض منظور ہو گا اور قسط 15 ہزار ماہانہ تک ہو جائے گی۔ انہیں فیصل آباد میں رجسٹری والا کوئی گھر 30 لاکھ سے کم میں نہیں مل رہا۔‘

نئی رعایتوں کے بعد حکومت کی سبسڈی کی رقم بھی 36 ارب روپے ہو گئی ہے (فوٹو: فری پک)

سٹیٹ بینک کا موقف

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان عابد قمر نے تسلیم کیا کہ اب تک سکیم کے تحت قرض کے لیے اپلائی کرنے والے افراد کی تعداد خاصی کم رہی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اعداد و شمار نہیں کہ اب تک کتنے لوگ اس سکیم سے مستفید ہوئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مختلف بینکوں کے خلاف سٹیٹ بینک کو متعدد شکایات موصول ہوئیں جس کے بعد سکیم کو بہتر کر دیا گیا ہے۔
شکایت کے ازالے کے لیے بہت کچھ کیا گیا ہے۔ سکیم کو بہتر کر دیا گیا ہے۔ شرح منافع کو کم کر دیا گیا ہے۔ کچھ پابندیاں نرم کر دی گئی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی نئی سکیم آتی ہے تو کچھ مسائل ہوتے ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ شکایات کم ہو جاتی ہیں۔ ترجمان سٹیٹ بینک کے مطابق ابھی سکیم کو چند ماہ ہوئے ہیں اتنی جلدی اس کی کامیابی کی توقع کرنا مشکل ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس اکتوبر میں  وزیراعظم عمران خان نے ہاؤسنگ قرضہ سکیم کا اعلان کیا تھا جس کے تحت 30 ارب روپے کی حکومتی سبسڈی کا اعلان کیا گیا تھا۔ 

حکومت کی جانب سے پانچ مرلہ اور 850 مربع فٹ پر گھر خریدنے والے افراد کے لیے شرح سود کو کم کر دیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

تمام تنخواہ دار، ملازمت پیشہ (ڈاکٹرز، انجینئرز وغیرہ) دکان دار، کاروباری لوگ، نان ریزیڈنٹ پاکستانی اس سکیم سے قرض حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ درخواست دینے کے خواہش مند کے پاس پانچ یا 10 مرلے کا پلاٹ ہونا چاہیے۔
اگر پلاٹ 10 مرلے سے بڑا ہوا تو سبسڈی نہیں دی جائے گی۔  ایک گھر سے صرف ایک فرد (شوہر، بیوی یا بچے) ہی درخواست دے سکتا ہے۔ اس سکیم میں ایسے لوگوں کو ترجیح دی جائے گی جن کے پاس پہلے سے اپنا کوئی گھر نہیں ہے۔
 قرض کی رقم کا انحصار اس شخص کے پلاٹ کی قیمت کے تخمینے پر ہو گا۔ جتنی پلاٹ کی قیمت زیادہ ہوگی اتنا ہی زیادہ قرض ملے گا۔ قرض کی ادائیگی قسطوں کی صورت میں پانچ سے 25 سال میں کی جا سکے گی۔
خواہش مند افراد بینک کی ویب سائٹ سے فارم ڈاؤن لوڈ کر سکیں گے اور اسے پر کرنے کے بعد اس کے ساتھ زمین کی ملکیت کے ثبوت، تصاویر، کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کی کاپی، شخصی ضامنوں کے شناختی کارڈز کی کاپیاں اور پلاٹ کا منظور شدہ نقشہ منسلک کرکے فارم جمع کروائیں گے۔

شیئر: