Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بزدار ہٹاؤ مہم‘: ’بزدار ن لیگ کی انشورنس پالیسی ہیں‘

پیپلزپارٹی گزشتہ کئی ہفتوں سے پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کو ہٹانے کے لئے صف بندی کر رہی ہے۔ (فوٹو: پی ایم ایل این)
پاکستان میں اپوزیشن کے اتحاد کی دوسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی گزشتہ کئی ہفتوں سے پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کو ہٹانے کے لیے صف بندی کر رہی ہے۔
اس سلسلے میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کئی بار بیان بھی دے چکے ہیں اور پنجاب کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز سے باقاعدہ مل بھی چکے ہیں۔
لیکن ن لیگ نے ایک بار بھی کھل کر اس بارے میں بات نہیں کی البتہ اس بات کی مخالفت کی ہے کہ بزدار کو نہیں ہٹایا جانا چاہیے۔
پنجاب میں ن لیگ کے سابق وزیر طاہر خلیل سندھو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک غیر ضروری عمل ہو گا۔ ’ہماری پارٹی کے نزدیک اس وقت یہ سوچ ہے کہ کیوں ایک ایسے سیاسی عمل میں پڑا جائے جو ہمارے کسی کام کا نہیں۔ بزدار کو ہٹانے سے تبدیلی نہیں آئے گی۔‘
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’دوسری بات یہ ہے کہ جو حال اس وقت پنجاب کا کر دیا گیا ہے اس میں یہ سارا ملبہ اس پر آئے گا جو ابھی حکومت کو ہٹائے گا یا سنبھالے گا۔ تو میرے خیال میں یہ نہیں ہو گا نہ مسلم لیگ ن ایسا کرے گا۔ اور ویسے بھی اب جو کچھ سینیٹ میں ہو چکا ہے اس کے بعد تو اب  ایسی بات بھی میرے خیال میں نہیں ہوگی۔‘
ان کے مطابق مسلم لیگ ن جو سیاست کر رہی ہے اس میں میاں نواز شریف صاحب نے واضح کر دیا ہے کہ نئے انتخابات ہی اب صورت حال کا اصل حل ہیں۔ ’میرے خیال میں اب بزدار کو ہٹانے کی بحث پرانی ہو گئی ہے، تحریک انصاف خود ہی ہٹائے تو ہٹائے۔‘
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول کی ’بزدار ہٹاو مہم‘ کے سلسلے میں پنجاب کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز سے ملاقات کے بعد ق لیگ کے چوہدریوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کی بہت زیادہ تفصیل تو باہر نہیں آئی لیکن مبصرین کے مطابق اس ملاقات میں بزدار حکومت ضرور زیر بحث آئی ہے۔
مسلم لیگ ق کے رہنما کامل علی آغا سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’بزدار کے موضوع پر بات کرنے کے لیے ہماری پارٹی نے پالیسی اختیار کی ہے کہ اس پر ہم بات نہیں کریں گے۔‘ 

کائرہ کا کہنا تھا ’اگر ہم نے بزدار ہٹانے کی بات کی تھی تو اس کا  یہ مطلب نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں حکومت چاہتی ہے۔ (فوٹو: پی ایم ایل این)

دوسری طرف پنجاب پیپلزپارٹی کے صدر قمرزمان کائرہ نے اردونیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پیپلزپارٹی ہمیشہ جمہوری طریقوں سے جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اور معاملات کو پارلیمانی طریقوں سے حل کرنے اور کوئی بھی قدم آئین کے اندر رہتے ہوئے اٹھانا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بلاول بھٹو صاحب نے جو پنجاب کے اندر تبدیلی کی بات کی تھی اور کہا تھا کہ اس بات کا فیصلہ پی ڈی ایم کرے گی کہ کب اور کہاں تحریک عدم اعتماد لانی ہے تو اس کا فلسفہ یہ تھا کہ حکومت کواس اس جگہ سے کمزور کیا جائے کہ پی ڈی ایم کے اپنے مقاصد بھی پورے ہوجائیں۔‘
کائرہ کا کہنا تھا ’اگر ہم نے بزدار ہٹانے کی بات کی تھی تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں حکومت چاہتی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو حال پنجاب کا ہوا پنجاب کو بچانے کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ ن لیگ پنجاب میں بزدار حکومت ہٹانے پر کیوں راضی نہیں، انہوں نے بتایا کہ ’مجھے نہیں پتا کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں ان کی اپنی سیاست ہے۔ لیکن میرے خیال میں استعفوں سے زیادہ اگر اسمبلیوں میں رہ کر حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔‘

’اگر ہم نے بزدار ہٹانے کی بات کی تھی تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں حکومت چاہتی ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی سے جب پوچھا گیا کہ ن لیگ پنجاب میں تبدیلی کیوں نہیں چاہتی تو انہوں نے بتایا کہ ’بزدار ایک کمزور وزیر اعلی ہیں، ان سے بیوروکریسی ہی نہیں سنبھل رہی اور نہ سنبھلے گی کیونکہ بیوروکریسی میں ن لیگ کی اب بھی بہت مضبوط روٹس ہیں۔ میں تو کہوں گا کہ بزدار ن لیگ کی انشورنس پالیسی ہیں۔ وہ اپنی پالیسی کیوں ختم کریں گے؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ن لیگ بالکل بھی بزدار کو ہٹانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اگر چوہدری پرویز الہی جیسا مضبوط وزیر اعلی آگیا تو نہ صرف بیورکریسی سیدھی ہو جائے گی بلکہ ن لیگ میں بھی شگاف پڑ سکتا ہے۔ تو میرے خیال میں اس وقت ن لیگ ہی سب سے بڑی حامی بزدار کی ہے۔‘

شیئر: