Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی کا یوٹرن؟ ن لیگ کو گیم بڑھانا ہوگی: ماریہ میمن کا کالم 

پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے ذریعے ایک قومی جماعت کے طور پر دوبارہ اپنی پوزیشن مستحکم کی (فوٹو: پی ایم ایل این)
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یا پی ڈی ایم اتحاد اب بند گلی میں داخل ہوچکا ہے۔ دونوں طرف سے لفظی گولہ باری بڑھتی جا رہی ہے اور طعنے، الزامات اور رنجشیں عروج پر ہیں۔
پی پی  پی کو پی ڈی ایم سے نکالنے کی خبریں بھی گرم ہیں۔ پی ٹی آئی کے وزرا کی طرف سے پیپلز پارٹی کی سیاسی سوجھ بوجھ کی تحسین کی جا رہی ہے اور ن لیگ پیپلز پارٹی کو سیلیکٹڈ قرار دے رہی ہے۔
سیاست میں کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا۔ سیاسی صورت حال ہفتوں میں نہیں دنوں میں بدلتی ہے مگر بظاہر پی ڈی ایم اتحاد اپنی سمت اور جوش وخروش دونوں سے محروم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے شور کے بعد کیا کھویا اور کیا پایا؟ بلکہ سوال یہ بھی ہے کہ کس نے کھویا اور کس نے پایا؟
 
پیپلز پارٹی سے اس سوال کا آغاز مناسب ہے کیونکہ اتحاد پر ضربِ کاری ان کی ہی طرف سے لگی ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پیپلز پارٹی نے مختلف لہجہ اور حکمت عملی اس وقت اپنائی جب پی ڈی ایم کا ستارہ اوپر کی طرف جا رہا تھا ۔ تازہ تازہ یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں اکثریت ثابت کی اور ن لیگ نے ضمنی انتخابات میں اور گیلانی صاحب نے سینیٹ میں تقریباً کامیابی حاصل کر لی۔
اسی وقت پیپلز پارٹی نے پینترا بدلا اور حکومت کو چھوڑ کر ن لیگ کو ہدف بنا لیا۔
کیا پیپلز پارٹی ایسے ہی موقع کا انتظار کر رہی تھی جب ان کا سیاسی وزن اتنا ہو جائے کہ وہ فریقین کی مجبوری بن جائے؟ بظاہر یہ بھی لگتا ہے کہ اس یوٹرن میں پیپلز پارٹی نے اپنے حساب سے کھویا کم اور پایا زیادہ ہے۔
پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے ذریعے ایک قومی جماعت کے طور پر دوبارہ اپنی پوزیشن مستحکم کی اور اب پی ٹی آئی کے متبادل کے طور پر بھی سامنے آگئی ہے۔
مریم نواز اس کو اصولوں پر سمجھوتہ کہہ رہی ہیں مگر سندھ میں حکومت کے تسلسل، کیسز میں سکون اور مزید سیاسی سپیس ملنے کو پیپلز پارٹی اپنے لیے پلس ہی سمجھے گی۔ کیا اس کے نتیجے میں اس کے جمہوری قد کو مستقبل میں نقصان پہنچے گا؟ اور کیا اس کو اس کی پروا ہے؟

پی ڈی ایم کے اختلافات کے بعد ن لیگ کے سیاسی آپشنز محدود سے محدود تر ہو گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ان سوالات کے بارے میں زرداری صاحب زیادہ پریشان نہیں ہوں گے۔ 
ن لیگ کو دوہرا چیلنج درپیش ہے بلکہ یہ کہنا درست ہے کہ مریم نواز کو دوہرے چیلنج کا سامنا ہے۔ ایک طرف ان کی اپنی جماعت کے اندر سے ایک بڑا گروپ مقتدر قوتوں کے ساتھ لڑائی کے حق میں نہیں اور دوسری طرف پی ڈی ایم کے اختلافات کے بعد اب سیاسی آپشنز بھی محدودو سے محدود تر ہو گئے ہیں۔
ن لیگ کے اندر زرداری صاحب پر اعتماد نہ کرنے والے ویسے ہی کم نہیں تھے اب ان کو مزید تقویت ملے گی۔ اگر مریم نواز کی ذات تک دیکھا جائے تو انہوں نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی حیثیت کو قومی سطح پر مستحکم کیا ہے۔
اسی لیے اب ان کا لہجہ سخت سے سخت ہو رہا ہے۔ سوال البتہ یہ ہے کہ اب جب کہ استعفے اور لانگ مارچ دونوں کا ہی امکان نہیں پھر ن لیگ کی مزید سیاسی حکمت عملی کیا ہے؟ اس کا جواب شاید پاکستان میں کسی کے پاس نہ ہو۔ 
پی ٹی آئی بطور ہدف اس تصویر کا تیسرا اہم کردار ہے۔ بظاہر پی ڈی ایم  کا نقصان ان کا فائدہ ہے۔ اگر لانگ مارچ اور استعفے ہوتے تو حکومت کے لیے مسائل بڑھتے۔ اب پی ٹی آئی کے لیے راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ مگر بات اتنی سادہ بھی نہیں۔
اگر پیپلز پارٹی کسی کی گڈ بُکس میں آتی ہے تو جو جگہ وہ حاصل کریں گے وہ پی ٹی آئی کی ہی ہو گی۔ مزید خان صاحب کا این آر او نہ دینے کا نعرہ بھی شاید کمزور پڑ جائے کیونکہ این آر او صرف اعلانیہ قانون بنا کر نہیں بلکہ گو سلو اور پس پردہ بھی ہو سکتا ہے۔

اگر پیپلز پارٹی کسی کی گڈ بُکس میں آتی ہے تو جو جگہ وہ حاصل کریں گے وہ پی ٹی آئی کی ہی ہوگی (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

پی ڈی ایم کے کمزور ہونے کے بعد بھی پیپلز پارٹی اپوزیشن میں رہے گی مگر وہ اپوزیشن اسی طرح ہو گی جس طرح سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کے موقع پر ہوئی۔ یعنی اپوزیشن ہے بھی اور نہیں بھی۔
 پارلیمنٹ میں قانون سازی میں بھی اب سب پارٹیاں اپنے فیصلے کریں گی۔ یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ پیپلز پارٹی کے فیصلے اب سسٹم کے بچاؤ کے لیے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے فیورٹ نعرے کے مطابق نظام کے اندر تبدیلی یعنی پی ٹی آئی کی جگہ لینے کی کوشش جاری رکھے گی مگر یہ کوششیں نظام کے لیے خطرہ ثابت نہیں ہوں گی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ موجودہ سیاسی بندوبست کو دوام مل گیا ہے۔ ہاں البتہ عارضی ریلیف ضرور ہے۔
گیند اب ن لیگ کے کورٹ میں ہے اور اس کو مؤثر ہونے کے لیے اپنی گیم بڑھانا پڑے گی ورنہ پی پی نے پی ڈی ایم سے جو پانا تھا پا لیا ہے۔

شیئر: