Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا کے ساتھ تجارت بحالی کا ای سی سی کا فیصلہ وزیراعظم کی مشاورت سے ہوا تھا؟

وزیر خزانہ حماد اظہر نے صحافیوں کے سوالات پر انڈیا کے ساتھ تجارت کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا فائدہ براہ راست غریب عوام اور چھوٹے کاروباری افراد کو ہوگا۔ (فوٹو: ریڈیو پاکستان)
وفاقی کابینہ نے جمعرات کو اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی ) کی جانب سے انڈیا سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے تجارت فوری طور پر بحال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی کابینہ کے اس فیصلے سے نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے اور نئے وزیر خزانہ حماد اظہر کے فخریہ اعلان کے ایک دن بعد ایسی کیا تبدیلی آئی ہے کہ حکومت نے فیصلے پر ’یو ٹرن‘ لے لیا ہے؟
جمعرات کو کابینہ اجلاس کے بعد وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ آج اجلاس میں بحث کے بعد کابینہ اس نتیجے پر پہنچی کہ اس فیصلے کو موخر کر دیا جائے۔
 
ان کے مطابق فیصلے سے یہ تاثر ابھر رہا تھا کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات بحالی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور تجارت کھل گئی ہے تو اس پر تبادلہ خیال کے بعد متفقہ رائے تھی اور وزیراعظم کی بھی رائے تھی کہ انڈیا جب تک پانچ اگست2019 کے یک طرفہ اقدامات پر نظرثانی نہیں کرتا تب تک انڈیا کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ممکن نہیں ہو گا۔
اس سے قبل بدھ کو نئے وزیر خزانہ حماد اظہر نے صحافیوں کے سوالات پر انڈیا کے ساتھ تجارت کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا فائدہ براہ راست غریب عوام اور چھوٹے کاروباری افراد کو ہوگا۔

کیا ای سی سی کا فیصلہ وزیراعظم سے پوچھ کر ہوا؟

وزیرخارجہ کے بیان کے مطابق جمعرات کو وزیراعظم سمیت سب کی متفقہ رائے تھی کہ انڈیا کے ساتھ تجارت کی بحالی کو پانچ اگست 2019 کے اقدامات کے خاتمے یعنی کشمیر کی خصوصی حثیت کی بحالی تک ملتوی رکھا جائے۔
اس سے یہ تاثر ابھرا کہ شاید ای سی سی کا انڈیا کے ساتھ تجارت کا فیصلہ وزیراعظم کی منظوری کے بغیر ہوا تھا۔ تاہم ای سی سی نے وزارت تجارت کی جس سمری کو بدھ کو منظور کیا تھا اس پر واضح لکھا ہے کہ یہ فیصلہ وزیراعظم عمران خان کی بطور کامرس منسٹر منظوری کے بعد لیا گیا ہے۔

 وزیرخارجہ نے بتایا کہ اجلاس میں بحث کے بعد کابینہ اس نتیجے پر پہنچی کہ اس فیصلے کو موخر کر دیا جائے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار اور انگریزی اخبار ڈان کے صحافی خلیق کیانی کا کہنا تھا کہ اس وقت وزارت تجارت کے انچارچ وزیراعظم خود ہیں اور رزاق داؤد مشیر تجارت ہیں۔
’اس لیے سمری ان کی منظوری کے بغیر ای سی سی بھیجی ہی نہیں جا سکتی تھی۔‘
معاشی امور کے صحافی شہباز رانا نے اردو نیوز کو بتایا کہ گو کہ کابینہ کا اختیار ہوتا ہے کہ ای سی سی کے فیصلوں کو مسترد کر دے تاہم عام طور پر99 فیصد کیسز میں کابینہ ای سی سی کے فیصلوں کی من و عن منظوری دے دیتی ہے ۔
ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم انڈیا سے چینی کی درآمد پر مشاورت باقاعدہ طور پر تین ہفتے قبل مکمل کی گئی تھی۔

وزیراعظم عمران خان کے ماضی کے تبدیل ہونے والے فیصلے

یہ پہلا موقع نہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنا کوئی فیصلہ بدلا ہو۔  یہاں تک کہ اپنی مسلسل تبدیل ہونے والی پالیسیوں کی بنا پر جب انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو اپنی حکومت سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی انہیں یہاں تک کہنا پڑا کہ حالات کے مطابق یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا۔ 
اپنی حکومت کے آغاز میں ہی انہوں نے ملک کی معاشی حالت کو سدھارنے کے لیے دنیا سے بہترین ماہرین کو جمع کرنے کے اعلان کے پیش نظر ماہر معاشیات عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کمیٹی کا رکن مقرر کیا۔

ای سی سی کی سمری میں واضح لکھا ہے کہ یہ فیصلہ وزیراعظم عمران خان کی بطور کامرس منسٹر منظوری کے بعد لیا گیا ہے۔ (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

تاہم کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید کے بعد عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کمیٹی کی رکنیت سے ہٹانے کا اعلان کر دیا۔
اس کے بعد حکومت ملنے کے بعد  انہوں نے اپنی کابینہ میں پانچ بار ردو بدل کیا۔ تین بار وزیرخزانہ کو تبدیل کیا گیا اور حماد اظہر کی تقرری کے ایک دن بعد ہی مقامی میڈیا پر سابق وزیرخزانہ شوکت ترین کو بطور وزیرخزانہ لائے جانے کی خبریں آنا شروع ہو گئیں۔
گو کہ شوکت ترین نے کابینہ میں آنے کو اپنے خلاف نیب کیسز ختم کرنے سے مشروط کر کے عارضی طور پر اس تبدیلی کا راستہ روک دیا۔
وزیراعظم عمران خان کا حکومت میں آنے سے قبل یہ مسلسل موقف تھا کہ عالمی مالیاتی اداروں اور بلخصوص آئی ایم ایف سے قرض لینا ملک کے لیے نقصان دہ ہے اور وہ اس کے مقابلے میں خودکشی کرنے کو ترجیح دیں گے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان کے موقف میں تبدیلی آئی اور باالآخر ان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔
اس کے علاوہ ان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نہیں دیں گے تاہم انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت میں متعارف کروائی گئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو معمولی رد و بدل کے ساتھ نافذ کیا۔

شیئر: