Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیب نے بیرون ملک مقیم پاکستانی کو غیر ضروری کیس میں تین سال الجھائے رکھا

راجہ ظفر نے 2014 میں 75 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے سی ڈی اے کے اوپن آکشن سے کمرشل پلاٹ خریدا۔ فائل فوٹو: روئٹرز
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بیرون ملک مقیم پاکستانی سرمایہ کار کے خلاف نیب راولپنڈی کی تین سال جاری رہنے والی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے نیب کی سرزنش کی ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس فیاض احمد انجم جنداران کے فیصلے کی نقل کے مطابق برطانیہ میں مقیم دہری شہریت کے حامل پاکستانی بزنس مین راجہ ظفر نے 2014 میں 75 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے سی ڈی اے کے اوپن آکشن سے کمرشل پلاٹ خریدا اور اپنے کزن راجہ ناصر کے ذریعے سی ڈی اے کو 2016 تک ادائیگی کی۔ اس رقم پر راجہ ظفر نے ایف بی آر کو ساڑھے سات کروڑ روپے ایڈوانس ٹیکس کی مد میں بھی ادا کیے۔
تاہم دو سال بعد اس بڑی رقم کی منتقلی پر بینک کی جانب سے مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹ بنی تو نیب نے برطانیہ میں مقیم راجہ ظفر کے خلاف انکوائری شروع کر دی۔
نیب کا نوٹس ملنے پر بیرون ملک مقیم پاکستانی نیب کے انکوائری افسر کے سامنے پیش ہو گئے اور پلاٹ کی قانونی خریداری کے حوالے سے تمام ریکارڈ پیش کیے تاہم ان کے خلاف انکوائری بند نہیں کی گئی بلکہ ان کے کمرشل پلاٹ پر کاشن عائد کر دیا ​جس کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
عدالت میں جمع کروائی گئی درخواست میں برطانوی سرمایہ کار نے موقف اختیار کیا کہ انہوں نے قانونی بینکنگ چینل استعمال کر کے اپنے پیسوں سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی اور ٹیکس دیا اور نیب کو ناقابل تردید شواہد بھی فراہم کیے تاہم ان کو ناصرف خومخواہ تنگ کیا گیا بلکہ برسوں تک پلاٹ پر کاشن لگا کر انہیں مالی نقصان بھی پہنچایا گیا۔
​ان کے خلاف کوئی کرپشن کا الزام بھی عائد نہیں کیا گیا بلکہ صرف حراساں کیا گیا۔
نیب پراسیکیٹور رانا زین طاہر اور انویسٹی گیشن آفیسر عدیل اختر نے عدالت کو بتایا کہ انہیں سٹیٹ بینک کے ذریعے اپریل 2017 کو بتایا گیا کہ گذشتہ تین سالوں میں یورو کرنسی کی بڑی مقدار پاکستان میں ایک بینک اکاونٹ میں منتقل کی گئی ہے اور ممکنہ طور پر منی لانڈرنگ کی گئی ہے۔
نیب انویسٹی گیشن افسر نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے انکوائری مکمل کر دی تھی اور اب وہ چیئرمین نیب کے پاس منظوری کے منتظر ہیں۔

نیب افسران کے مطابق انہیں اپریل 2017 میں بتایا گیا کہ گذشتہ تین سالوں میں یورو کرنسی کی بڑی مقدار پاکستان میں ایک بینک اکاونٹ میں منتقل کی گئی۔ فائل فوٹو: روئٹرز

عدالت کے استفسار پر نیب افسر نے بتایا کہ انکوائری کے بعد ثابت ہوا کہ راجہ ظفر بے قصور ہیں اس لیے انہوں نے انکوائری بند کرنے کی سفارش کی تھی۔ تاہم ابھی چیئرمین نیب نے اسکی منظوری نہیں دی۔
عدالت نے نیب کی سست روی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فیصلے میں ریمارکس دیے کہ بیرون ملک سے کی گئی سرمایہ کاری پر نیب کے اقدام سے ایسے شخص کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی جو پاکستان میں باہر سے سرمایہ لا کر کاروبار کرنا چاہتا تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ بغیر ثبوت اوورسیز پاکستانی سرمایہ کار کیخلاف نیب کی کارروائی بدنیتی ہے۔ نیب حکام نے اوورسیز پاکستانی کو تین سال مقدمے میں غیر قانونی طور پر الجھا کر نہ صرف ادارے کا قیمتی وقت ضائع کیا بلکہ بیرون ملک سے کی گئی سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ شکنی کی اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا۔
عدالت نے نیب کو راجہ ظفر عباسی کے خلاف ہر طرح کی کارروائی سے روک کر ان کے پلاٹ پر کاشن کو ختم کر دیا ہے۔

شیئر: