Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مصر میں تین ہزار سال قدیم ’گمشدہ سنہری شہر‘ کی دریافت

کھدائی کے دوران یہاں سے زیورات سمیت مختلف اشیا دریافت ہوئی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
مصر میں آثار قدیمہ کے ماہرین نے تین ہزار سال قدیم شہر کی باقیات دریافت کی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق فرعونوں کے سنہری دور کی یہ باقیات لکسور شہر کے باہر ایک صحرا میں ملی ہیں۔ یہ مصر کی تاریخ کی اب تک کی سب سے بڑی دریافت ہے۔
مصری آثار قدیمہ کے مشہور ماہر زاہی حواس نے ’گمشدہ سنہری شہر‘ کی دریافت کا اعلان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ مقام بادشاہوں کی مشہور وادی کے گھر لکسور کے قریب دریافت ہوا ہے۔
کھدائی کرنے والی ٹیم نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ڈاکٹر زاہی حواس کے ماتحت مصری مشن نے یہ شہر دریافت کیا جو ریت کے نیچے کھو گیا تھا۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ شہر تین ہزار سال پرانا ہے، جہاں امنحتب سوم حکمرانی کرتے تھے اوران کے بعد توتن خامون اور ایی کے بھی استعمال میں رہا۔‘
ٹیم نے اس دریافت کو مصر کی تاریخ میں دریافت ہونے والا اب تک کا ’سب سے بڑا‘ قدیم شہر قرار دیا ہے۔
ٹیم کے بیان کے مطابق جان ہوپکنز یونیورسٹی میں مصری آرٹ اور آثار قدیمہ کے پروفیسر بیٹسی برائن نے تقریباً سو سال پہلے دریافت ہونے والے توتن خامون کے مقبرے کے بعد اسے دوسری سب سے اہم دریافت قرار دیا ہے۔
کھدائی کے دوران یہاں سے زیورات، مٹی کے رنگین برتن اور دوسری اشیا ملی ہیں۔
زاہی حواس جو سابق وزیر نوادرات بھی ہیں کا کہنا ہے کہ ’بہت سے غیر ملکی مشنز نے اس شہر کی تلاش کی اور انہیں یہ کبھی نہ ملا۔‘
اس شہر کے لیے گذشتہ سال ستمبر میں لکسور کے قریب رمسس سوم اور امنتحتب سوم کے مندروں کے درمیان کھدائی شروع کی گئی تھی۔
کچھ ہی ہفتوں میں کھدائی کرنے والی ٹیم کو ایک بڑا تحفہ ملا اور تمام سمتوں میں مٹی کی اینٹوں کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے۔

شیئر: