Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کبھی سوچا نہ تھا کہ زندہ افراد کی آخری رسومات کے لیے کہا جائے گا‘

انڈیا میں رواں ماہ 15 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)
محمد شمیم ایک اور ایمبولینس کو کورونا وائرس کے شکار شخص کو دفنانے کے لیے دیکھتے ہوئے رک جاتے ہیں، یہ ایمبولینس کچھ ہی منٹوں بعد ایک اور ایمبولینس کے بعد قبرستان پہنچی ہے۔
گذشتہ کئی ہفتوں سے انڈیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کی وجہ سے گورکنوں کے کام میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔
انڈیا میں حکام کورونا وائرس کے کیسز اور اموات میں اچانک اضافے کے لیے تیار نہیں تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق غروب آفتاب تک 20 میتیں دفن ہو گئی تھیں۔  دہلی میں گورکنوں کے ہیڈ شمیم کا کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے جنوری اور دسمبر میں ان کی زمین کھودنے والی مشین بیکار پڑی تھیں اور اس وقت بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ وبا ختم ہو چکی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر صورت حال یہی رہی تو تین یا چار دنوں میں قبرستان میں جگہ کم پڑ جائے گی۔‘
محمد شمیم کے بقول ’دو دن پہلے کوئی آیا اور کہا کہ ان کی والدہ کی آخری رسومات کے لیے انتظامات شروع کر دیں کیونکہ ڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہے۔‘
’میں نے کبھی ایسا سوچا نہیں تھا، میں وہ دیکھوں گا کہ مجھے کوئی زندہ شخص کی آخری رسومات کی تیاری کی درخواست کرے گا۔‘

کچھ شمشان گھاٹ لوگوں سے اپنی لکڑیاں لانے کا بھی کہہ رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

سرکاری اعداد و شمار کے بعد کورونا وائرس کی وبا سے تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور رواں ماہ 15 ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔
تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
سوشل میڈیا اور اخبارات مُردوں کی آخری رسومات کی خوفناک تصاویر سے بھرے پڑے ہیں۔
دہلی کے باہرغازی آباد میں ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا ہے کہ کفن میں لپٹی لاشیں فٹ پاتھ پر پڑی ہیں، غم سے نڈھال رشتے دار آخری رسومات کے لیے ان کی باری کا انتطار کر رہے ہیں۔
مغربی ریاست گجرات کے سورت، راجکوٹ، جام نگر اور احمد آباد کے شمشان گھاٹوں میں کئی گنا زیادہ لاشیں آ رہی ہیں اور تقریباً 24 گھنٹے آخری رسومات کا سلسلہ چل رہا ہوتا ہے۔‘
گذشتہ دو ہفتوں سے روزانہ 20 گھنٹوں تک مسلسل چلنے کی وجہ سے احمد آباد میں ایک برقی بھٹی کی چمنی ٹوٹ گئی تھی۔

کورونا کیسز میں اضافے کی وجہ سے معمولات زندگی بھی متاثر ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح سورت میں ایک برقی بھٹی کے لوہے کے فریم اس لیے پگھل گئے کہ اس کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وقت ہی نہیں مل رہا تھا۔
لکھنو کے دو شمشان گھاٹوں میں رشتہ داروں کو آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے ٹوکن دیا جاتا ہے جس کے لیے ان کو 12 گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔
روہت سنگھ کے والد کورونا وائرس سے ہلاک ہوئے، انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’شمشان گھاٹ کے اہلکار تقریباً سات ہزار روپے چارج کرتے ہیں جو نارمل ریٹ سے 20 گنا زیادہ ہے۔‘
اسی طرح کچھ شمشان گھاٹ لوگوں سے اپنی لکڑیاں لانے کا بھی کہہ رہے ہیں۔
انڈیا میں نہ صرف کورونا وائرس کے کیسز میں بلکہ اموات بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔

شیئر: