Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش کی سیاست میں نئی ہلچل، طارق رحمان کی 17 سال بعد وطن واپسی

طارق رحمان نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس سے ملاقات کی تھی (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش کے طویل عرصے سے حکمران خاندان کے وارث اور سب سے طاقتور سیاسی پارٹی کے رہنما طارق رحمان 17 سال جلاوطنی کے بعد جمعرات کو وطن واپس آ رہے ہیں۔
ان کی واپسی ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب بنگلہ دیش میں اہم انتخابات کا انعقاد ہونے والا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 60 سالہ طارق رحمان 2008 میں بنگلہ دیش سے جلاوطن ہونے کے بعد لندن چلے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں سیاسی مقاصد کے لیے جلا وطن کیا گیا۔
بی این پی کے عبوری چیئرمین کے طور پر وہ اپنی بیماروالدہ 80 سالہ سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کی جگہ پارٹی کی قیادت سنبھالیں گے۔
برسوں کی بیماری اور قید کاٹنے کے باوجود خالدہ ضیا نے نومبر میں وعدہ کیا تھا کہ وہ 12 فروری 2026 کے انتخابات میں حصہ لیں گی۔ تاہم اس اعلان کے فوراً بعد وہ ہسپتال منتقل ہو گئیں اور وہاں انتہائی نگہداشت میں ہیں۔
شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد طارق رحمان پر لگایا گیا سب سے سنگین الزام ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ الزام 2004 میں حسینہ کے جلسے پر گرینیڈ حملے سے متعلق تھا جس کی وجہ سے ان کی غیر حاضری میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ طارق رحمان نے اس الزام کی تردید کی تھی۔
بی این پی کے سیکریٹری جنرل مرزا فخر الاسلام علمگیر نے کہا ہے کہ ’طارق رحمان 25 دسمبر کو ڈھاکہ کی سرزمین پر ہمارے درمیان پہنچیں گے۔ انہوں نے 25 دسمبر کو ایک شاندار دن قرار دیا ہے۔
پارٹی کے بینرز پر خالدہ ضیا کے ساتھ طارق رحمان کی تصاویر بھی ہوتی تھیں اور انہیں طویل عرصے سے پارٹی کی قیادت کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
لندن میں رواں سال جون میں انہوں نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس سے ملاقات کی تھی تاکہ فروری کے انتخابات تک معاملات پر بات ہو سکے۔
رحمان جنہیں طارق ضیا کے نام سے جانا جاتا ہے، کا سیاسی نام ان کی زندگی کی پہچان رہا ہے۔
وہ 1967 میں پیدا ہوئے جب ملک ابھی مشرقی پاکستان کہلاتا تھا اور 1971 کی آزادی کی جنگ کے دوران وہ مختصر عرصے کے لیے قید بھی ہوئے۔ بی این پی انہیں ’سب سے کم عمر جنگی قیدیوں میں سے ایک‘ قرار دیتی ہے۔ ان کے والد ضیاء الرحمان ایک فوجی کمانڈر تھے۔
ضیاء الرحمان نے 1975 کی فوجی بغاوت جس میں شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمان قتل ہو گئے، کے چند ماہ بعد اثر و رسوخ حاصل کیا۔
اس کے بعد خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ کے خاندانوں کے درمیان تنازعات کا آغاز ہوا جسے ’بیگموں کی لڑائی‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں بیگم سے مراد ’طاقتور خاتون‘ ہے۔
ضیاء الرحمان کا قتل اس وقت ہوا جب رحمان طارق 15 سال کے تھے۔
انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد 23 سال کی عمر میں سیاست میں قدم رکھا۔ انہوں نے بی این پی میں شمولیت اختیار کر کے فوجی حکمران حسین محمد ارشد کے خلاف جدوجہد کی۔
اس کے باوجود طارق رحمان کے کیریئر پر نیپوٹزم اور بدانتظامی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
2006 میں امریکی سفارت خانے کی ایک رپورٹ نے لکھا کہ وہ ’کچھ لوگوں کو متاثر لیکن بہت سوں کو خوفزدہ بھی کرتے ہیں۔‘
دیگر رپورٹس میں انہیں بدعنوان حکومت اور پُرتشدد سیاست کی علامت قرار دیا گیا اور ان پر ’ناقابل یقین حد تک بدعنوان‘ ہونے کے الزامات عائد کیے گئے۔ طارق رحمان نے ان الزامات کو ’سیاسی‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
طارق رحمان کو 2007 میں بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ دورانِ حراست انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹس کے مطابق ان کی رہائی اس شرط پر ممکن ہوئی کہ وہ سیاست چھوڑ دیں۔ اسی سال رہائی کے بعد وہ 2008 میں طبی علاج کے لیے لندن چلے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔
شیخ حسینہ کی برطرفی کے بعد طارق رحمان نے سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا کُھل کر اظہار کیا اور بی این پی کے حامیوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہو گئے۔

 

شیئر: