Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ سرینا ہوٹل کی پارکنگ میں دھماکہ خودکش حملہ تھا: شیخ رشید

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ بدھ کو کوئٹہ کے سرینا ہوٹل کی پارکنگ میں ہونے والا دھماکہ خود کش حملہ تھا۔
جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خودکش دھماکے کے لیے 60 سے 80 کلو دھماکہ خیر مواد استعمال ہوا اور حملہ آور گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دھماکے کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے اور 11 افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے چھ اس وقت ہسپتال میں زیر اعلاج ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چین کے سفیر محفوظ ہیں اور آج سٹاف کالج سے خطاب کیا ہے۔
ان کے بقول ’میں نے چیف سیکریٹری سے کہا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کرے۔‘
شیخ رشید احمد نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے حملے کی ذمہ داری کے بارے میں ان کو علم نہیں۔
دھماکہ بدھ کی رات کوئٹہ کے سب سے بڑے تھری سٹار سرینا ہوٹل کی پارکنگ میں ہوا جس سے وہاں کھڑی چار سے پانچ گاڑیوں کو آگ لگ گئی۔‘
دوسری جانب چین نے کوئٹہ بم دھماکے کی ’شدید مذمت‘ کرتے ہوئے اسے ’دہشت گرد‘ حملہ قرار دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے کہا کہ ’دھماکے کے وقت چینی وفد ہوٹل میں موجود نہیں تھا۔‘
دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد میں ہوٹل کا ایک ملازم، دو سکیورٹی گارڈز اور ایک پولیس اہلکار شامل تھے جبکہ ہلاک ہونے والے چوتھے شخص کی شناخت نہیں ہو سکی۔
ایم ایس سول ہسپتال ڈاکٹر ارباب کامران کے مطابق ’زخمیوں میں دو اسسٹنٹ کمشنرز بھی شامل ہیں۔‘
مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ ’کوئٹہ دھمااکے نے 10 بلین ٹری سونامی منصوبے پر کام کرنے والے بلوچستان کے محکمہ جنگلی حیات کے دو نوجوان افسروں کی جان لے لی ہے۔ خدا ان کی مغفرت فرمائے۔‘
صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا لانگو نے کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ’دھماکہ جس ہوٹل میں ہوا وہاں چینی سفیر ٹھہرے ہوئے تھے، تاہم دھماکے کے وقت وہ اپنے وفد کے ہمراہ کوئٹہ چھاؤنی کے اندر کوئٹہ کلب میں موجود تھے۔‘
اس سوال پر کہ دھماکے کا ہدف کیا تھا؟ صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے ابھی تحقیقات ہو رہی ہیں۔‘
میر ضیا لانگو نے بتایا کہ ’دھماکے کے بعد انہوں نے چینی سفیر سے ملاقات کی ہے، ان کے حوصلے بلند ہیں اور انہوں نے کوئٹہ میں اپنی مصروفیات جاری رکھنے کا کہا ہے۔‘
اس موقع پر ڈی آئی جی کوئٹہ اظہر اکرم کا کہنا تھا کہ ’دھماکہ بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے کیا گیا۔‘
بم ڈسپوزل سکواڈ کے ایک اہلکار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’دھماکے کے لیے بارود سے بھری گاڑی کا استعمال کیا گیا۔ گاڑی میں 80 سے 90 کلوگرام دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔‘

ڈی آئی جی کوئٹہ اظہر اکرم کے مطابق ’دھماکہ بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے کیا گیا‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اس سے قبل بلوچستان پولیس کے ترجمان نے کہا تھا کہ ’ابتدائی شواہد کے مطابق یہ خودکش دھماکہ ہو سکتا ہے، چونکہ دہشت گرد ہوٹل میں داخل نہیں ہوسکا لہٰذا گاڑی میں موجود حملہ آور نے پارکنگ میں ہی دھماکہ کر دیا۔‘
’بم ڈسپوزل سکواڈ دھماکے کی جگہ سے شواہد اکٹھے کر رہا ہے جس کے بعد ہی حقائق سامنے آئیں گے۔‘
دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا جبکہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو سول ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ 
گذشتہ رات علاقے میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے سرچ آپریش بھی شروع کر دیا گیا۔ 
آئی جی بلوچستان رائے محمد طاہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’دھماکے سے نقصانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سی ٹی ڈی نے دھماکے کی جگہ کو سیل کر دیا ہے۔‘

دھماکے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جب دھماکہ ہوا تو اس وقت چینی سفیر ہوٹل میں موجود نہیں تھے بلکہ وہ ہوٹل سے باہر کسی اور تقریب میں موجود تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’دھماکے میں پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں، واقعے کی اعلیٰ سطح پر مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔‘
انہوں نے چیف سیکرٹری بلوچستان سے واقعے کی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے وضاحت کی ہے کہ ’دھماکے کے وقت ہوٹل میں کوئی غیر ملکی وفد موجود نہیں تھا۔‘
دھماکے سے ہوٹل کے قریب واقع ایرانی قونصل خانے اور بلوچستان ہائی کورٹ کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔
دھماکہ اس قدر زور دار تھا کہ اس کی آواز کئی کلومیٹر دور تک سنی گئی۔

صوبائی وزیر داخلہ کے مطابق ’دھماکے کے وقت چینی سفیر ہوٹل میں موجود نہیں تھے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

دھماکہ کی جگہ سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع منان چوک اور جناح روڈ پر بھی کئی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹے۔
خیال رہے کہ زرغون روڈ صوبائی دارالحکومت کا اہم علاقہ ہے، جہاں ایرانی قونصل خانہ، بلوچستان ہائی کورٹ اور صوبائی اسمبلی سمیت کئی اہم عمارتیں واقع ہیں۔  
سرینا ہوٹل سے چند سو میٹر کے فاصلے پر گورنر ہاؤس اور وزیر اعلیٰ ہاؤس بھی واقع ہیں۔

شیئر: