Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کا آرمینیائی قوم کی نسل کشی کو تسلیم کرنا کیوں ضروری ہے؟

سلطنت عثمانیہ کے دور میں دس لاکھ سے زائد آرمینیا کے لوگوں کو قتل کیا گیا۔ فوٹو عرب نیوز
آرمینیا میں ہر سال 24 اپریل ’غم کے دن‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 
اس دن سنہ 1915 میں سلطنت عثمانیہ نے پہلی مرتبہ اس کے تسلط میں رہنے والی آرمینیائی قوم کے خلاف ظلم و ستم کا آغاز کیا تھا جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ ہلاک اور ملک بدر ہوئے۔
عرب نیوز کے مطابق ترکی کی حکومت سلطنت عثمانیہ کے دور میں ہونے والے جرائم کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔
آج بھی آرمینیا، مشرق وسطیٰ، امریکہ یا روس میں رہنی والی آرمینیائی قوم کا کوئی فرد ایسا نہیں ہے جس کے والدین یا دادا، پردادا نسل کشی کا نشانہ نہ بنے ہوں۔
اس سال ایک مرتبہ پھر آرمینیا کی قوم امریکہ سے امید لگائے بیٹھی ہے کہ صدر جو بائیڈن کی حکومت سلطنت عثمانیہ کے آرمینیائی قوم کے خلاف ظلم و ستم کو نسل کشی قرار دے گی۔
آرمینین نژاد امریکی مصنف کرس بوہجالین نے عرب نیوز کو بتایا کہ سلطنت عثمانیہ نے منظم طریقے سے دس لاکھ سے زائد آرمینیائی قوم سے تعلق رکھنے والوں کو قتل کیا تھا، اس کے علاوہ تین لاکھ آشوری اور لاتعداد یونانیوں کو ہلاک کیا۔ تاہم ترکی ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ 
موسم بہار کے اس خوشگوار مہینے میں 24 اپریل کو سلطنت عثمانیہ کے عہدیداروں نے سینکڑوں آرمینیائی دانشوروں کو حراست میں لیا اور موت کے گھاٹ اتار دیا۔ آئندہ ہفتوں میں ہزاروں کی تعداد میں آرمینیائی قوم کے عام لوگوں کو زبردستی ان کے گھروں سے نکالا اور صحرا کی جانب دھکیل دیا جہاں سے وہ کبھی لوٹ کر واپس نہ آئے۔
مصنف کرس بوہجالین کا کہنا ہے کہ یہ دن آرمینینا کے لوگوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اس دن آباؤ اجداد کی جانیں گئیں، اپنا وطن چھوٹا، مشرقی ترکی میں اپنی ثقافت سے جدا ہوئے۔
’ہمارے زخم آج بھی تازے ہیں کیونکہ ترکی نے ان جرائم کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا اور اکثر ممالک کو معلوم ہی نہیں کہ ایسا کبھی ہوا بھی تھا۔‘
آرمینیائی قوم کی نسل کشی کا موازنہ بیسویں صدی میں ہونے والی نقل مکانی اور دنیا کی مختلف قوموں کے خلاف ہونے والے قتل و غارت کے کئی واقعات سے کیا جاتا ہے۔
کرس بوہجالین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا نازی جرمنی یہودیوں کے خلاف ظلم کی مہم چلا سکتا تھا اگر اس سے پچیس سال پہلے آرمینیائی قوم کی نسل کشی کے واقعات نہ پیش آئے ہوتے۔
سعودی دارالحکومت ریاض میں کنگ فیصل سینٹر کے ایک ریسرچ فیلو جوزف ککین نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے ہٹلر کا مشہور جملہ دہرایا۔
ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف نسل کشی کی مہم چلاتے ہوئے کہا تھا ’کسے آرمینیا کی قوم یاد ہے؟‘
ترکی یہ حقیقت تو تسلیم کرتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران کئی آرمینیائی سلطنت عثمانیہ کی فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے لیکن ہلاکتوں کی تعداد کو متنازع ٹھہراتا ہے اور اسے نسل کشی قرار دینے سے انکاری ہے۔
امریکہ کی آرمینیائی نیشنل کمیٹی کے سربراہ آرمن سہاکین کے خیال میں نسل کشی کبھی ختم ہی نہیں ہوئی، یہ آج بھی ترکی اور آذر بائیجان میں جاری ہے تاکہ آرمینیائی قوم کے آبائی وطن میں ہی ان کے وجود کو ختم کر دیا جائے۔
امریکی صدر جو بائیدن نے سنہ 1915میں ہونے والی آرمینیا کی قوم کے خلاف قتل و غارت کی مہم کو باضابطہ طور پر نسل کشی قرار دینے کا عندیہ دیا تھا۔

سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں آرمینیائی نسل کشی کو ترکی تسلیم نہیں کرتا۔ فوٹو عرب نیوز

ترکی نے رد عمل میں امریکی حکومت کو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنے کا کہا تھا۔
ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاؤشولو کا کہنا تھا کہ جن بیانات کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہو، ان کا کوئی فائدہ نہیں البتہ وہ تعلقات کو ضرور نقصان پہنچا سکتے ہیں، اگر امریکہ تعلقات مزید خراب کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کا فیصلہ ہے۔

شیئر: