Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چلتے ہو تو چمن کو چلیے

’چمن‘ کے مقابل سرحد کے دوسری جانب ’سپن بولدک‘ شہر ہے، ’سپن بولدک‘ کے معنی سفید پہاڑ ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
چلتے ہو تو چمن کو چلیے، سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں، پھول کِھلے ہیں، کم کم باد و باراں ہے
’میر‘ کی زبانی ’چمن‘ کی کہانی سُنی تو دل مچل گیا، کاروبار زندگی کو بریک لگایا، ٹکٹ کٹوایا اور سیدھے ’چمن‘ پہنچ گئے، مگر یہاں نہ ہریالی تھی نہ پھولوں کی ڈالی، نہ باد و باراں نہ جشنِ بہاراں، ہم چکرا کر رہ گئے کہ ’یاالٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟‘ وہاں اگر کچھ تھا تو وہ مناظرکی بے رنگی اور موسم کی بے کیفی تھی۔ سادہ لفظوں میں کہا جائے مسافر ’چمن‘ کے چکر میں خود ’چمن‘ بن چکا تھا۔

 

اس سے پہلے کہ شاعر اور شاعری سے اعتبار اُٹھتا، ایک خضر صورت بزرگ سے معلوم ہوا کہ ’چمن‘ شہر کا نام پھلوں کے مشہور تاجر ’چمن داس‘ کے نام پر ہے۔ نیز یہاں پھل نہیں ہوتے مگر افغانستان سے آتے اور یہاں سے گزر کر پاکستان بھر میں جاتے ہیں۔
’چمن‘ کے مقابل سرحد کے دوسری جانب ’سپن بولدک‘ شہر ہے، ’سپن بولدک‘ کے معنی سفید پہاڑ ہیں، یہاں سے مزید آگے بڑھیں تو تاریخی شہر ’قندھار‘ پہنچ جاتے ہیں۔ اس ’قندھار‘ کو ’کندھار‘ بھی لکھتے ہیں، یوں یہ ’گندھارا‘ سے قریب ہوجاتا ہے، جو پاکستان کے شمال مغرب میں مشہور تاریخی شہر ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے ’قندھار‘ اصلاً ’گندھارا‘ ہی کی بدلی صورت ہے۔
’قندھار‘ کی وجہ تسمیہ سے متعلق ایک روایت کے مطابق اسکندر مقدونی نے اس خطے کو فتح کیا تو اسے اپنا نام دیا، جو مقامی لہجے کے زیر اثر ’اسکندر‘ سے ’کندار‘ ہوا پھر ’کندھار‘ اور ’قندھار‘ پکارا گیا۔ جب کہ دوسری روایت کے مطابق ’قندھار‘ کا نام دو لفظوں ’قند‘ یعنی شکر اور ’ھار‘ یعنی سرزمین سے مرکب ہے، یوں ’قندھار‘ کے معنی ’سرزمین شکر‘ کے ہیں، اسے یہ نام یہاں پیدا ہونے والے میٹھے اور رسیلے پھلوں کی وجہ سے دیا گیا ہے، ’قندھاری انار‘ تو آج بھی ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔

’قندھاری انار‘ تو آج بھی ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور بہت مشہور ہے (فوٹو: روئٹرز)

’قندھار‘ اور ’گندھار‘ ہی کی طرح انڈیا کی شمالی ریاست ’بِہار‘ اور وسط ایشیاء کا مشہور شہر ’بخارا‘ بھی اصلاً ایک ہی لفظ کی دو مختلف صورتیں ہیں۔ وہ یوں کہ سنسکرت اور اس کی رعایت سے پالی زبان میں بدھ مت کی عبادت گاہ اور بدھ بھکشوؤں کی اقامت گاہ کو ’وہارا‘ کہا جاتا ہے۔ سنسکرت کے اکثر الفاظ کے آخر میں الف کی خفیف سی آواز پائی جاتی ہے، جو بعض صورتوں میں واضح ہوتی ہے اور بعض موقعوں پر ساقط ہوجاتی ہے، جیسے راما کو رام یا کرشنا کو کرشن کہتے ہیں ایسے ہی ’وہارا‘ کو ’وہار‘ بھی کہا جاتا ہے۔ چوں کہ اس علاقے سے مہاتما بدھ کو خاص نسبت تھی، اس لیے یہاں جا بجا ’وہار‘ بنے ہوئے تھے، جن کی کثرت کے سبب اس علاقے کا نام ہی ’وہار‘ پڑ گیا، جو ’و‘ کے حرف ’ب‘ سے بدلنے پر ’وہار‘ سے ’بہار‘ ہوگیا اور آج بھی اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔
بدھ مت کو فروغ حاصل ہوا تو بہت سے خطوں کی طرح وسط ایشیا بھی اس کے زیر اثر آگیا اور اس خطے میں جس علاقے میں ’وہارا‘ کی بہتات ہوئی وہ ان کی نسبت سے ’وہارا‘ پکارا گیا۔ پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ حروف ’ح/ہ‘ اکثر صورتوں میں ’خ‘ سے بدل جاتے ہیں جیسے ترکی زبان میں خیرالدین کو حیرالدین پکارتے ہیں یا جیسے پشتو میں ’رحمان‘ کو ’رخمان‘ کہا جاتا ہے ایسے ہی ’وہارا‘ کے ساتھ ہوا جو اس صوتی تبدیلی نتیجے میں ’وہارا‘ سے ’بخارا‘ ہوگیا۔
’وہار‘ یا ’وہارا‘ کا مذہبی پیشوا ’پَرمکھ‘ کہلاتا تھا، جو عربی میں ’برمک‘ ہوگیا۔ عہد عباسی کا مشہور  ’خاندان برامکہ‘ کو اسی ’برمک‘ سے نسبت تھی، جن کے اجداد کسی زبان میں ’پرمکھ‘ کے عہدے سے وابستہ تھے۔

جواہر لعل نہرو کے مطابق جاپان کا نام جاپان مشہور سیاح مارکوپولو کی غلطی کی وجہ سے پڑا (فوٹو: این ڈی ٹی وی)

اب جاپان کی بات کرتے ہیں، جسے اس ملک کی سرکاری دستاویز میں نیپون (Nippon) لکھا جاتا ہے جب کہ عوامی لہجے میں نیہون (Nihon) کہا جاتا ہے۔ اور ان دونوں لفظوں کا مطلب ’ابھرتے سورج کی سرزمین‘ ہے، اس بات کا عکس اس ملک کے پرچم میں بھی دکھا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب اس ملک کا نام نیپون یا نیہون ہے تو اسے جاپان کس حساب میں کہا جاتا ہے؟
کتاب 'Glimpses of World History' کے مصنف پنڈت جواہر لعل نہرو کے مطابق مغربی دنیا میں اس ملک کا نام ’جاپان‘ سیاح ’مارکوپولو‘ کی غلطی کی وجہ مشہور ہوا۔ مصنف کے مطابق مارکوپولو چین آیا مگر انتہائی مشرق میں واقع ملک ’نیپون‘ نہ جاسکا، بعد میں جب وہ وطن لوٹا تو اتفاقاً گرفتار ہوگیا۔ دوران اسیری جب اس نے یاداشت کی بنیاد پر اپنا سفر نامہ لکھا تو ’نیپون‘ کے معاملے میں اس سے چُوک ہوگئی یوں ’نیپون‘ کو ’جاپان‘ لکھ دیا اور بعد میں یہی نام اس ملک کی پہچان بن گیا۔

شیئر: