Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی ہنرمند نے قدیم روایت کو کیسے زندہ رکھا ہے

تسبیح کا واحد مقصد عبادت کے لیے استعمال تھا اب فیشن بھی ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب میں دستکاری کی صنعت میں ہاتھ سے تیار کیا گیا کپڑا اور ہاتھ سے بنائی گئی تسبیح یہاں کی ثقافت اور ورثے کا ایک شاہکار جزو سمجھا جاتا ہے۔
سرکاری نیوز ایجنسی واس کے مطابق تسبیح بنانے کی اس قدیم روایت کو عربی میں 'صبح' کہا جاتا ہے جس کے معنی تسبیح کی وہ تار یا دھاگا کے آتے ہیں جس میں موتی پرو کراسےعبادت کےدوران گنتی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
تسبیح بنانے کا ہنر خاص معاشرتی ورثہ سے مالامال ایک ثقافتی دستکاری صنعت کی شکل میں گذشتہ کئی نسلوں سے چلا آ رہا ہے۔

ابراہیم العبیدہ نے جنادریہ میلے میں  فن کے قدردانوں سے داد حاصل کی۔ (فوٹو عرب نیوز)

تسبیح کو یہاں کی قومی شناخت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اسے عرب اسلامی دنیا میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔
یہاں کچھ خاندانوں کا روزگار دستکاری کے اس مخصوص فن سے جڑا ہوا ہے۔
سعودی عرب کے علاقے حائل میں اس فن کے مشہور کاریگر ابراہیم العبیدہ 1990 کی دہائی سے اس سے منسلک ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ بچپن سے ہی تسبیح تیار کرنے کا ہنر سیکھنا شروع کر دیا تھا۔
حائل کی برزان مارکیٹ میں ایک چھوٹی سی دکان سے انہوں نے یہ کام شروع کیا۔  شوق اور لگن کے باعث دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے ہاتھ سے تسبیح تیار کرنے کے فن میں مہارت حاصل کر لی۔
اس کاریگر کی تیار کئی گئی تسبیح  اب خلیجی کونسل کے ممالک کے ساتھ ساتھ یورپ اور امریکہ میں بھی دستیاب ہے۔
ابراہیم العبیدہ کا کہنا ہے کہ موتیوں کے ساتھ کھیلنے کا میرا یہ شوق تقریبا 20 برس پرانا ہے۔ بچپن میں بازار سے موتی خرید کر انہیں مختلف قسم کے دھاگوں میں پرویا کرتا تھا۔ اس کام کو مقامی طور پر 'تربوش' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 5 سال قبل باقاعدہ طور پر تسبیح بنانے کا تجربہ حاصل کرنے کے لیے استاد جمال الجہنی سے تربیت حاصل کی۔

کچھ خاندانوں کا روزگار دستکاری کے اس مخصوص فن سے جڑا ہوا ہے۔(فوٹو عرب نیوز)

تسبیح بنانے کا  کام مرحلہ وار کیا جاتا ہے اور اس میں پروے ہوئے ہر  دانے کو موتی کی شکل میں ضرورت مند کے استعمال کے مطابق رکھا جاتا ہے۔
تیاری کے اس مرحلہ وار عمل میں خام مال کو احتیاط سے کاٹ کر اس کے کنارے درست کئے جاتے ہیں اور پھر انہیں موتیوں کی شکل میں ترتیب دیا جاتا ہے۔
بڑی احتیاط کے ساتھ اس کے درمیان میں سوراخ بنانے سے اس عمل  کا آغاز ہوتا ہے۔ ان موتیوں کو مخصوص قسم کی پالش کر کے دھاگے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
 ہمارے ہاں تسبیح کئی قسم کےقدرتی اور مصنوعی مواد سے تیار کی جاتی ہے۔ اس کے لیے قیمتی پتھر، سخت اور خوشبودار لکڑی کے علاوہ ہاتھی دانت کا بھی استعمال ہوتا ہے جب کہ  پلاسٹک، پتھر ، فائبر اور  دیگرٹھوس مواد سے بھی اسے تیار کیا جاتا  ہے۔
اب  اس کام سے منسلک بہت سے  کاریگروں نے تسبیح کی مختلف اقسام ، رنگ اور نمونوں کی تیاری میں مہارت حاصل کرلی ہے۔
ابراہیم العبید نے بتایا کے بعض اوقات تسبیح کی تیاری میں ایک مہینہ بھی لگ سکتا ہے، یہ  سب اس میں استعمال کئے جانے والے سامان اور اس کی تیاری میں نفاست پر منحصر ہے۔

تسبیح بنانے کا ہنر ثقافتی دستکاری کی شکل میں نسلوں سے چلا آ رہا ہے۔(فوٹو عرب نیوز)

ان کا کہنا ہے کہ تسبیح خریدنا عام چیزوں کی طرح نہیں ہے۔ یہ قیمت میں مختلف حیثیت رکھتی ہے۔اسلامی معاشرے کے مختلف طبقات تسبیح  کا استعمال کرتے ہیں۔
قبل ازیں تسبیح کا واحد مقصد اسےعبادت کے لیےاستعمال کیا جاتا تھا جب کہ آج کل یہ فیشن کے طور پر بھی استعمال ہو رہی ہے اور کئی تقریبات اور اہم موقعوں پریہ ایک اچھا، یادگار اور نادر تحفہ بھی سمجھا جاتا ہے۔
سعودی عرب کے مشہور جنادریہ میلے کے علاوہ سوق عکاظ میلے اور متعدد تقاریب اور تہواروں میں ابراہیم العبیدہ نے اپنے اس فن کے قدردانوں سے داد و تحسین حاصل کی ہے۔
ابراہیم العبیدہ  نے بتایا  کہ انہوں نے اس ہنرسے منسلک کاریگروں کے درمیان ہونے والے مقابلے میں پہلی بار حصہ لیا اور مملکت میں ان کا نام  دوسرے نمبر پر رہا۔
 

شیئر: