Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اردوغان کی میڈیا پر پابندی کی کوشش، ترکی میں 200 مظاہرین گرفتار

پولیس نے تکسم چوک میں مارچ میں شریک افراد کے ساتھ جھگڑا کیا۔ (فوٹو: ایسوسی ایٹڈ پریس)
استنبول میں ترک پولیس نے یوم مزدور پر کورونا وائرس لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والے لیبر مارچ کے مظاہرین پر کریک ڈاؤن کر کے 200 سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔
عرب نیوز کے مطابق پولیس اور سادہ لباس میں ملبوس افسروں نے تکسیم چوک میں یونین لیڈروں اور مارچ میں شریک افراد کو زبردستی روکا۔
اس حوالے سے استنبول کے گورنر آفس کا کہنا تھا کہ ’یہ غیرقانونی طور پر اکھٹے ہوئے تھے اور انہوں نے منتشر ہونے کی تمام درخواستوں کو نظر انداز کیا۔‘
انقرہ اور مغربی شہر ازمیر میں بھی مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔
صحافیوں نے وزارت داخلہ کے گذشتہ جمعے سکیورٹی فورسز کی دوران ڈیوٹی عکس بندی پر پابندی کے باوجود اس کریک ڈاؤن کو ریکارڈ کیا۔
اس پابندی کے حوالے سے صدر رجب طیب اردوغان کی حکومت کا کہنا ہے کہ پابندی کا مقصد افسروں کی پرائیوسی کی حفاظت کرنا ہے کیونکہ تصاویر کی آن لائن گردش سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے بارے میں ’مشہور غلط فہمیوں‘ کی وجہ بنی ہے۔
تاہم ماہرین نے عرب نیوز کو بتایا کہ پابندی غیرقانونی ہے اور شہریوں کے حقوق کو پولیس کی جوابدہی کو کمزور کرنے اور ثبوت اکھٹا کرنے سے روکنے سے خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
ماہرین کے مطابق خاص کر ایسے مقدموں میں جہاں پولیس مظاہرین کے خلاف تشدد کی مرتکب ہوتی ہے۔
میڈیا پر پابندی کے حوالے سے ٹیکنالوجی اور آئی ٹی قانون میں ماہر وکیل گوکھن آہی کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کے سرکلر کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ آئین نے نجی زندگی کی حفاظت کا اختیار صرف انفرادی طور پر دیا ہے۔ سرکاری اداروں اور سرکاری عہدیداروں کو اس طرح کا کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ پابندی بے بنیاد ہے کیونکہ مظاہرین کے خلاف پولیس فورس کی کارروائیوں میں ان کی پرائیوسی شامل نہیں ہے۔ بصورت دیگر، تھانوں میں حفاظتی کیمرے لگانا غیر ضروری ہوگا۔‘

شیئر: