Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یہ بیٹھک کی طرح ہے‘ پاکستان میں ٹوئٹر سپیس کی بڑھتی مقبولیت

سپیس میں بیک وقت 10 لوگ بات کر سکتے ہیں (فوٹو: پکسابے)
ٹوئٹر پر روز لگنے والی ٹرینڈز کی ریس تو اپنی جگہ، اب ’سپیس‘ بھی آ گیا ہے تاہم اس میں کس کے لیے کتنی سپیس ہے، یہ کیسے کام کرتا ہے اور جن لوگوں نے اسے استعمال کیا ہے اس کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں۔
سپیس میں صارف ایک چیٹ روم تشکیل دیتا ہے جس میں لکھنے کے بجائے بول کر اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملتا ہے۔ میزبان کی مرضی ہے کہ وہ اس چیٹ روم میں بولنے کا دے، بصورت دیگر سامع بن کر ہونے والی گفتگو سنی جا سکتی ہے۔
سپیس میں بیک وقت 10 لوگ بات کر سکتے ہیں اور دوران گفتگو مائیک خاموش کرنے کا آپشن بھی موجود ہے۔ سامعین خود بھی گروپ چھوڑ سکتے ہیں جبکہ میزبان جب چاہے کسی بھی سپیکر کا بولنے کا آپشن بند کرسکتا ہے۔
 پاکستان میں اس فیچر کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ہے۔ ابتدا میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے سپیس سیشن شروع کیے تو ہر پاکستانی ٹوئٹر صارف کو اس کا انتظار رہنے لگا۔ ٹوئٹر نے بھی پاکستانیوں کو زیادہ انتظار نہیں کروایا اور فیچر فراہم کر دیا۔
پاکستان میں زیادہ تر سپیس سیاسی امور، حالات حاضرہ، سماجی ومعاشرتی مسائل، شعر و شاعری اور انسانی دلچسپی کے امور پر ہو رہے ہیں۔

سپیس کا استعمال

اردو نیوز نے اس حوالے سے مختلف صارفین سے گفتگو کی ہے۔
ٹوئٹر سپیس کے ذریعے سیاسی جماعتیں اپنی قیادت کو کارکنوں اور سوشل میڈیا صارفین سے رابطے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانیز زلفی بخاری کو ایک ٹوئٹر سپیس میں جوائن کرایا، جہاں صارفین کے سوالوں کے جواب بھی دیے۔
اس حوالے سے تحریک انصاف سوشل میڈیا سیل کے انچارج محمد کامران کا کہنا ہے کہ ’جلد ہی ان سپیسز کے ذریعے ٹوئٹر صارفین سے رابطے کا مربوط پروگرام تشکیل دیا جائے گا اور سپیسز میں حکومتی وزرا کو بلایا جائے گا۔‘
جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا سیل کے انچارج شمس الدین امجد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ٹوئٹر سپیس ایک بیٹھک یا چوپال کی طرح ہے۔‘
ان کے مطابق ’فی الحال تو اسے موضوعاتی گفتگو کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جس میں کوئی اینکر صحافی اور سیاستدان بھی ڈسکشن کا حصہ بن رہے ہیں تو لوگ زیادہ دلچسپی سے حصہ لیتے ہیں، ایک مثبت ٹول ہے، اس سے لوگوں کو سیکھنے کو ملے گا۔‘
ٹوئٹر پر سرگرم سفینہ خان، جو خود بھی سپیس سیشن کرتی ہیں، نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میں نے اس کے ذریعے دو بڑے سیشنز کیے جن میں ایک کورونا اور دوسرا ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے متعلق تھا۔ یہ بہت کامیاب رہے اور بڑی تعداد میں ویری فائیڈ اکاؤنٹس نے اس میں حصہ لیا۔‘

سپیس میں بول کر اپنے خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

انھوں نے کہا کہ ’اس سیشن کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب مجھے امریکہ سے کوالیفائیڈ ماہر نفسیات رابطہ کرکے کہہ رہے ہیں کہ دوبارہ یہی موضوع رکھیں تو وہ لوگوں کے سوالوں کے جواب دیں گے۔‘
سوشل میڈیا پر متحرک صحافی جویریہ صدیق نے اگرچہ ابھی تک خود کوئی سپیس سیشن نہیں کیا تاہم وہ مختلف سیشنز میں بطور سپیکر شامل ہوئی ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’جب میں ایک مباحثے میں شامل ہوئی تو اس میں 100 کے قریب شرکا تھے۔ لوگ اس فورم کو ذرا ہٹ کے موضوعات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘

آزادی اظہار اور سائبر ہراسیت کے خدشات

صحافی اور سوشل میڈیا صارف شنیلہ عمار نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’ایک خدشہ ہے کہ بعض لوگ فیک اکاؤنٹس کے ذریعے مختلف سپیسز میں جائیں گے اور ریکارڈنگز کر کے لیک کی جا سکتی ہیں تو ہراسیت کا مسئلہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔‘

سپیس میں صارف ایک چیٹ روم تشکیل دیتا ہے جس میں مختلف لوگ بات کر سکتے ہیں (فوٹو: پکسابے)

اس حوالے سے شمس الدین امجد کا کہنا ہے کہ ’سوشل میڈیا پر ہر کوئی اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے، تو سپیس اس آزادی میں اضافہ ہی کرے گا۔ اب تک جتنی سپیس میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ آزادی کا ہی احساس ہوا ہے۔ اگر پاپولر اکاؤنٹس اس میں حصہ لیں تو اسے مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ فی الحال ہراسانی کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا تاہم ہوا بھی تو سپیس سے نکلنے کا آپشن موجود ہے۔‘
سعد مقصود نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ٹوئٹر نے اپنے آفیشل پیجز پر اطلاع دی ہے کہ سپیس میں کسی بھی قسم کی ہراسیت سے بچنے کے لیے مستقبل میں سپیس کو اوپن یا کلوز رکھنے کا آپشن بھی متعارف کرایا جائے گا۔ جس سے میزبان جس کو چاہے گا سپیس میں شامل کرے گا اور جسے نہیں چاہے گا اپنے سیشن میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔‘

شیئر: