Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایف آئی اے کا صحافیوں کو نوٹسز بھیجنا بدترین سنسرشپ ہے‘

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایف آئی اے کا صحافیوں کو نوٹس بھیجنا چیلنج کیا گیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے بارے میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ایف آئی اے ہمیشہ یکطرفہ کارروائی کرتی رہی ہے، کبھی نہیں دیکھا کہ ایف آئی اے کسی حکومتی شخصیت کے خلاف کیس بنا کر لائی ہو۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے یہ ریمارکس جمعے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایف آئی اے کے اختیارات سے تجاوز کرنے سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کے دوران دیے۔ 
درخواست میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم ایکٹ کے سیکشن 20 کے تحت صحافیوں کو نوٹس بھیجنے کے عمل کو چیلنج کیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’اگر کسی پر تنقید کرنے کے خلاف کارروائی شروع کر دی تو پھر بات کہیں نہیں رکے گی، صحافیوں کو تنقید کرنے پر ایف آئی کی جانب سے نوٹسز بھیجنا بدترین سنسرشپ ہے۔ اگر آپ نوٹسز جاری کرنے لگ جائیں گے تو ملک میں کوئی نہیں بولے گا۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’اس عدالت کے بارے میں بہت توہین آمیز باتیں کی گئیں لیکن ایف آئی اے نے کبھی کارروائی نہیں کی، میری تصویر سپریم کورٹ کے ایک جج کے ساتھ لگا کر پتہ نہیں کیا کیا لکھا گیا لیکن ایف آئی اے حرکت میں نہیں آئی۔‘
عدالت نے ایف آئی اے کا سائبر کرائم ایکٹ کے سیکشن 20 کے تحت کارروائی کرنے سے متعلق سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا آئین کے آرٹیکلز 14، 19 اور 19 اے کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ 

چیف جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق تنقید کرنے پر صحافیوں کو نوٹسز بھجوانا بدترین سنسرشپ ہے۔ فوٹو اے ایف پی

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایسے تو اپوزیشن لیڈر وزیراعظم کے خلاف درخواست دے دیں تو کیا ایف آئی اے وزیر اعظم کو نوٹس بھیجے گا؟ 
عدالت نے سینئر وکیل حامد خان، عابد حسن منٹو اور وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کو کیس میں معاون مقرر کر دیا ہے۔
عدالت نے کیس میں معاونین اور ایف آئی اے سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

شیئر: