Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'کس کی اتنی ہمت کہ پولیس وردی میں یہ کام کیا'

عدالت نے کہا کہ صحافی مطیع اللہ جان کا کیس پولیس کے لیے ٹیسٹ کیس ہے (فوٹو: فیس بک)
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کی بازیابی کے لیے دائر درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹاتے ہوئے کہا ہے کہ عام آدمی سے وفاقی دارالحکومت میں یہ رویہ نہیں رکھا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ یہ الارمنگ ہے اور اس کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ جس نے بھی یہ کیا ہے وہ باقیوں کو ڈرانا چاہتا ہے۔
بدھ کو سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کی بازیابی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پولیس کے ہوتے ہوئے یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ وفاقی حکومت کو بھی آزادی اظہار رائے کو یقینی بنانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کس کی اتنی ہمت ہے کہ جس نے پولیس کی وردی میں یہ کام کیا۔ تمام گاڑیوں کے اوپر بھی پولیس لائٹس لگی ہوئی تھی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ رول آف لا نہیں ہوگا تو یہاں کچھ نہیں ہوگا بلکہ صرف افراتفری ہوگی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صحافی کے خلاف کسی بھی جرم پر دہشتگردی کی دفعات لگتی ہیں ’کیا پولیس نے ایف آئی آر میں دہشتگردی کی دفعات شامل کی ہیں۔‘
ڈی آئی جی پولیس وقار الدین نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ایف آئی آر درج کر لی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا ایف آئی آر میں دہشتگردی کی دفعات کیوں نہیں شامل کیں۔ عوام کو کیا تاثر ملے گا کہ پولیس کی وردی میں لوگ دندناتے پھر رہے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ رول آف لا نہیں ہوگا تو یہاں کچھ نہیں ہوگا (فوٹو: اے ایف پی)

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کا مزید کہنا تھا کہ کسی کی جرات نہیں ہونی چاہیے کہ وہ پولیس کی گاڑیاں اور وردی استعمال کرے۔
سابق صدر پی ایف یو جےافضل بٹ  نے کہا کہ اگرعدالت بروقت نوٹس نہ لیتی تو شاید آج ہم سڑکوں پر بیٹھے ہوتے۔
وکیل جہانگیر جدون نے کہا کہ پولیس تفتیش کر کے عدالت کو بتائے کہ اس سارے عمل کے پیچھے کون تھا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اسلام آباد میں یہ عمل ہوا۔
’سی سی ٹی وی آگئی ہے یونیفارم دیکھا جا سکتا ہے یہ پولیس کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔‘

شیئر: