Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں مسلمان جم ٹرینر ہلاک: ’غنڈے نہ مسلمان ہیں نہ ہندو‘

آصف خان کے دو ساتھی بھی اس واقعے میں زخمی ہوئے۔ (فوٹو: فیس بک)
ہریانہ کے میوات سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان جم ٹرینر آصف خان کو اتوار کی رات ایک مسلح گروپ نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگانے کے بعد مبینہ طور پر ہلاک کیا ہے۔
انڈین اخبار ٹریبیون کے مطابق آصف خان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اس کو ’جے شری رام‘ کہنے پر مجبور کیا گیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ چھ افراد کو گرفتار کیا ہے جبکہ آٹھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
31 سالہ راشد اور 22 سالہ واصف جو آصف ​​کے ہمراہ تھے پر بھی حملہ کیا گیا لیکن وہ اس حملے میں بچ گئے جبکہ راشد انتہائی نگہداشت یونٹ میں زیر علاج ہیں۔
آصف خان کی لاش ہریانہ کے سونہا کے نواح میں واقع ایک گاؤں نانگلی سے ملی جبکہ آصف خان کے رشتے داروں نے انڈیا کے نجی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے گاؤں میں مسلمان اور ہندو گروپوں کے مابین دشمنی کافی عرصے سے چل رہی تھی۔
انڈیا میں مبینہ طور پر مسلمان نوجوان کے قتل کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر صارفین کی جانب سے ٹرینڈ چلایا گیا جس میں دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان سے بھی صارفین نے حصہ لینا شروع کیا اور انڈیا سمیت پاکستان میں بھی جسٹس فار آصف ٹرینڈ کرنے لگ گیا۔
صارفین کی جانب سے انڈیا میں اقلیتی برادری کے ساتھ نارواں سلوک پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔
صارف راکھی ترپاٹھی لکھتی ہیں کہ ’جے شری رام‘ کو ہندوستان میں مسلمانوں کو مارنے کے لیے آلے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ نعرہ لگانے والے قاتل ہیں، بےگناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور انھیں کوئی افسوس نہیں۔ اس کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہرگز نہیں۔‘
جہاں صارفین انڈیا میں مسلم اقلیتی برادری کے ساتھ پیش ہونے والے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں وہیں کچھ صارفین کا کہنا تھا کہ انڈیا میں اقلیتی برادری کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے۔
ٹوئٹر ہینڈل اکھل شمینا نے لکھا کہ ’کورونا کے خلاف لڑو۔ آپس میں لڑائی نہ کرو۔‘
صارفین کا کہنا تھا کہ انڈیا میں ہندو مسلم کے درمیان رنجشیں پرانی ہیں لیکن انسانی جانوں کا ضیاع افسوس ناک ہے۔
صارف جوئے برسوال نے لکھا ’غنڈے نہ مسلمان ہیں نہ ہندو، غنڈے صرف غنڈے ہیں۔ آئیے یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہوں۔‘

صارفین کے مطابق جب تک معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی اور دیگر مذاہب کے لیے برداشت پیدا نہیں ہوگی اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔
انڈیا میں اس سے پہلے بھی اس قسم کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

شیئر: