Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین مدارس میں ہندو مذہب کی 'آپشنل' تعلیم، 'اقلیت پر اکثریت کے نظریات مسلط‘

مدارس میں ہندو مذہب کی تعلیم دینے کو 'آپشنل' بنانے پر مسلمان لیڈران اور سکالز نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
انڈین میڈیا میں بحث جاری تھی کہ مدرسوں یا اسلامی درس گاہوں میں ہندو مذہب سے متعلق مواد جیسا کہ 'بھگوت گیتا' اور 'راماین' کو نصاب کا حصہ بنانا لازمی ہے۔ تاہم انڈین حکومت نے بدھ کو ان 'گمراہ کن' رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قدیم صحیفے پڑھانا لازمی نہیں ہے۔
ملک کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن سکولنگ نامی بورڈ کی چیئرمین سروج شرما نے عرب نیوز کو بتایا کہ، 'یہ مدرسوں پر منحصر ہے اگر وہ انڈین کہانیاں پڑھانا چاہیں۔'
یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب مقامی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ وزارت تعلیم کے خود مختار ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن سکولنگ نے ہندو مذہب کی تعلیمات ایک سو خود مختار مدرسوں میں لازمی قرار دینے کے احکامات جاری کیے۔
پروفیسر سروج شرما کا کہنا تھا کہ یہ گمراہ کن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن سکولنگ مدرسوں کا احترام کرتا ہے اور اس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا اپنی پسند کے کسی بھی مضمون کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
گذشتہ سال جولائی میں متعارف کروائی جانے والی نئی تعلیمی پالیسی کے تحت انڈیا کی قدیم ثقافتی تعلیم کے موضوع کے زیر سایہ حکومت نے نصب میں 15 نئے مضامین شامل کیے تھے۔ ان میں ہندو مذہب کی تعلیم دینے والا مواد ہے، جس میں وید پڑھانا، یوگا سکھانا اور سنسکرت زبان پڑھانا شامل ہے۔
میڈیا رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن سکولنگ کے یہ تازہ احکامات خود مختار مدرسوں کے لیے ہیں۔
واضح رہے کہ انڈیا میں دو طرح کے مدارس ہیں: ایک جو حکوت کے مدرسہ بورڈ سے منسلک ہیں اور دوسرے وہ ہیں جن کا نظام کمیونٹیز سنبھالتی ہیں۔

انڈیا میں دو طرح کے مدارس ہیں: ایک جو حکوت کے مدرسہ بورڈ سے منسلک ہیں اور دوسرے وہ ہیں جن کا نظام کمیونٹیز سنبھالتی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

پروفیسر سروج شرما کے مطابق نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن سکولنگ سے 500 مدارس منسلک ہیں اور 'مزید جلد شامل کیے جائیں گے'۔
تاہم نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن سکولنگ کی جانب سے مدارس میں ہندو مذہب کی تعلیم دینے کو 'آپشنل' بنانے پر مسلمان لیڈرز اور سکالز نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ان میں سے کچھ اسے 'اقلیت پر اکثریت کے نظریات مسلط کرنے کی کوشش' کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
دارالعلوم فرنگی محل مدرسہ کے چیئرمین مولانا خال رشید نے عرب نیوز کو بتایا کہ، 'مدرسے بنانے کا مرکزی مقصد اسلام کی تعلیمات دینا ہے۔ اسلامی درسگاہوں میں ہندو مواد پڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ مواد ہندو مذہبی سکولوں میں پڑھایا جانا چاہیے۔'
دارالعلوم فرنگی محل مدرسہ 350 سال پرانا ہے اور یہ انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش میں لکھنو شہر میں واقع ہے۔
یہ ریاست وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتی جنتا پارٹی چلاتی ہے اور اس میں ملک کی آبادی کا بڑا حصہ رہتا ہے۔  

شیئر:

متعلقہ خبریں