Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحافی اسد علی طور پر تشدد، ’پاکستان میں سچ بولنا اور لکھنا منع‘

ایچ آر سی پی نے صحافی اسد علی طور پر حملے کی مذمت کی ہے۔ (فوٹو: اسد علی طور فیس بک)
اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے صحافی اسد علی طور کو مبینہ طور پر ان کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے ہیں۔
منگل کو رات گئے ان کے ساتھی صحافیوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اس واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا کہ ’اسلام آباد میں مقیم صحافی اسد علی طور پر و وفاقی دارالحکومت میں حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے تاہم ان کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔‘
صحافتی تنظیموں اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے جبکہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری  نے واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر برائے اطلاعات ضروری کارروائی کرنے کے لیے پولیس سے رابطے میں ہیں۔
منگل اور بدھ کی درمیانی شب صحافی اعزاز سید نے واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ صحافی اور بلاگر اسد طور پر حملہ اور تشدد کیا گیا۔‘
حملے کے بعد جب صحافی اسد طور قریبی ہسپتال پہنچے تو کافی دیر تک ان کو علاج مہیا نہیں کیا گیا جس کے حوالے سے ایک اور صحافی عادل شاہ زیب نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ابھی پِمز پہنچا، اسد طور کو ابھی تک کوئی طبی علاج مہیا نہیں کیا گیا، ان کو بری طرح سے مارا گیا، بائیں ہاتھ / کہنی سے ابھی تک خون بہہ رہا ہے۔‘
صحافی اسد طور پر حملے کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان میں صحافت اور صحافیوں کو مکمل آزادی ملنی چاہیے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایچ آر سی پی صحافی اسد طور کے گھر میں تین نامعلوم افراد کی جانب سے ان پر وحشیانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہے، ہم اسے آزادی اظہار اور آزاد پریس پر اور ایک حملے کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘
ٹویٹ میں مزید کہا گیا کہ ایچ آر سی پی  مطالبہ کرتا ہے کہ حکام حملہ آوروں کو فوری گرفتار کریں اور قانونی چارہ جوئی کی جائے۔
حملے کے بعد صحافی اسد طور نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’حملہ آوروں نے ان سے پوچھا کہ ان کو فنڈنگ کہاں سے آتی ہے جس پر انہوں نے کہا کہ تنخواہ کے علاوہ ان کے پاس کوئی پیسہ نہیں آتا، جس کے بعد حملہ آوروں نے ان کو زمین پر پٹخا اور کہا کہ خاموش ہوجاؤ آواز نہیں نکالنی۔‘
اسد علی طور پر حملے کے بعد صارفین کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔
سماجی کارکن شمع جونیجو نے لکھا کہ ’مطیع اللّہ جان، ابصار عالم، اور اب اسد علی طور۔۔۔ پاکستان میں سچ بولنا اور لکھنا منع ہے۔‘
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے لکھا کہ صحافی اسد طور پر حملے کی مذمت کرتے ہیں، سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے حملہ آور دیکھے جا سکتے ہیں، وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری پولیس سے ضروری کارروائی کرنے کے لیے پہلے ہی رابطے میں ہیں۔
 
پاکستان میں آزادی صحافت اور اظہار رائے کے حوالے سے صارفین تبصرے کرتے ہوئے نظر آئے۔
20 اپریل کو  پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابق چیئرمین اور سینیئر تجزیہ کار ابصار عالم پر حملہ ہوا تھا، جس میں وہ گولی لگنے سے زخمی ہوئے تھے۔

شیئر: