Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران کے رضا پہلوی جوہری معاہدے پر مایوس

رضا پہلوی کا کہنا تھا کہ ان کا ایران کا نیا ’شاہ‘ بننے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)
ایران کے جلا وطن ولی عہد رضا پہلوی کا خیال ہے کہ تہران میں موجودہ حکومت کے برسراقتدار رہتے جوہری معاہدے پر بات چیت کا کوئی ’خاطر خواہ‘ نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
انہوں نے عرب نیوز کے ’فرینکلی سپیکنگ‘ پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بات سے قطع نظر یہاں جو بھی بات چیت کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کا اصل نتیجہ یہ ہے کہ یہ بے معنی ہے۔ (ایرانی) حکومت اس کو صرف بلیک میل کرنے کے ذریعے کے طور پر استعمال کر رہی ہے تاکہ دنیا کو اس سے نمٹنے پر مجبور کیا جائے اور اس کی خطے کی جغرافیائی سیاست پر گرفت برقرار رہے۔‘
رضا پہلوی نے اپنے انٹرویو کے دوران آیت اللہ دور کے خاتمے کے بعد ایران کے مستقبل میں سعودی عرب اور اسرائیل سمیت مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک سے تعلقات پر بھی بات کی اور زیادہ تر ایرانیوں کی ملائیت سے پہلے کی زندگی کی طرف لوٹ جانے کی خواہش کا بھی ذکر کیا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی ایران کا نیا ’شاہ‘ بننے کی کوئی خواہش نہیں ہے اور یہ ایرانی عوام کا فیصلہ ہوگا کہ وہ کس طرز حکومت کے تحت زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
’میں کسی عہدے کے لیے کوشش نہیں کر رہا۔ میری زندگی کا واحد مقصد اس آخری حد تک جانا ہے جو ایران کی آزادی ہے اور اس حکومت کے بعد ایک نئے سیکولر، جمہوری نظام کو قائم کرنا ہے۔ اس دن میری زندگی کے سیاسی مشن کا اختتام ہوگا۔‘
ایران کے آخری شاہ کے سب سے بڑے بیٹے رضا پہلوی سنہ 1979 میں ایرانی انقلاب تک تخت کے وارث تھے۔
اس کے بعد سے وہ نیشنل کونسل آف ایران، جس کے وہ بانی اور قائد بھی ہیں، کے ذریعے حکومت کے خلاف سرگرم کارکن کے طور پر زیادہ تر امریکہ میں ہی رہے ہیں۔
رضا پہلوی نے واشنگٹن اور تہران کے درمیان سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کے نئے ورژن پر بلواسطہ بات چیت، جس کا مقصد ایران کی جوہری انڈسٹری کو ریگولیٹ کرنا اور تمام دنیا کے ساتھ معاشی روابط دوبارہ بحال کرنا ہے، کے درمیان امریکی صدر جو بائیڈن کو سخت پیغام دیا ہے۔
’یہ حکومت اپنا رویہ نہیں بدلے گی کیونکہ اس کی تمام تر بقا اس بات پر انحصار کرتی ہے کہ وہ ایک نظریہ برآمد کرنا چاہتی ہے اور خطے پر براہ راست یا اپنی پراکسیز کے ذریعے قابو کرنا چاہتی ہے۔‘
اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’ہم نے حقیقت میں دیکھا ہے کہ (امریکی پابندیوں) نے زیادہ تر حکومت پر دباؤ بڑھایا اور اس پر مجبور کیا کہ وہ اپنی من مانیاں کرنے کی صلاحیت کو محدود کرے۔ کسی بھی طرح کی نرمی (حکومت) کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور اسے خطے میں مسلسل عدم استحکام پیدا کرنے کے قابل بناتی ہے۔‘
رضا پہلوی کے خیال میں اگر معاشی پابندیاں اٹھائی جاتی ہیں تو اس سے ایران کے خطے میں دہشت گردی کی مالی اعانت کے امکانات میں اضافہ ہوگا۔ جہاں اس نے یمن، عراق، شام اور لبنان میں اپنی ملیشیا کے ذریعے سعودی عرب اور دوسرے ممالک پر حملے کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں ہم نے اوباما انتطامیہ کے دوران پہلے ہی ایک بار ایسا دیکھا ہے جہاں حکومت کو خطیر رقم جاری کی گئی اور اس میں سے کچھ بھی ایران کے عوام پر خرچ نہیں کیا گیا تھا۔‘
تہران میں حکومت کی تبدیلی کے بعد رضا پہلوی ایران اور اس کے ہمسایوں جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے کے درمیان اچھے تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز دیکھتے ہیں۔
اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’انقلاب سے پہلے جس طرح کا رشتہ تھا اسے دیکھیں۔ جب سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل کا انتقال ہوا تھا تو ایران میں سات دن سوگ منایا گیا تھا۔ یہ رشتہ اس حد تک تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ نہیں بدلے لیکن حکومت بدل گئی ہے۔ اور خطے میں اس کے منفی اثرات کے نتیجے میں ہم یقینی طور پر ایک ایسے مستقبل کی توقع کر سکتے ہیں جہاں باہمی احترام اور خوشگوار تعلقات بہتر تجارت، زیادہ مواقع اور لوگوں کی زندگیوں میں بہتری، بہتر رہن سہن، صحت، خطے کے استحکام، سکیورٹی میں ہم آہنگی اور دوسری بہت سی چیزوں کے لیے سازگار ہوں گے۔‘
رضا پہلوی نے سعودی معیشت کو متنوع بنانے اور معاشرتی اور ثقافتی زندگی کو آزاد بنانے کے لیے وژن 2030 کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور مشرق وسطی کے کچھ ممالک کے مابین ابراہم معاہدوں کی بھی تعریف کی۔
اس حوالے سے ایران کے جلا وطن ولی عہد کا کہنا تھا کہ ’دوسری قومیں محصول کے بڑے ذریعے کے طور پر تیل پر انحصار نہ کرنے، اپنی معیشتوں کی اصلاح اور مستقبل کے منصوبے رکھنے اور یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اور باہمی تعاون کے لیے آگے بڑھ رہی ہیں۔ یہ ہی ماڈل ہے جس کی پیروی کرنی چاہیے۔‘
’اس ارتقا اور ابراہم معاہدوں اور اس کے بعد آنے والی ہر چیز کو دیکھ کر مجھے اس سے زیادہ خوش نہیں ہو سکتی کیونکہ ہم ترقی اور علاقائی تعاون اور مواقع کی سمت میں ہیں۔‘
رضا پہلوی نے انقلاب سے قبل خلیج میں ایران کے کردار کا موجودہ حالات سے موازنہ کیا جہاں ملک اور اس کے لوگ تیزی سے تنہا ہو رہے ہیں۔
انقلاب سے قبل کے وقت کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت تھا کہ دبئی میں لوگ تہران آنے اور ہمارے سپر سٹورز میں جانے اور شاپنگ کرنے کا خواب دیکھتے تھے۔ آج تہران میں رہنے والے ہر شخص کا خواب ہے کہ وہ ایران سے دور چلا جائے۔‘
رضا پہلوی نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ تہران کے طلبا نے حال ہی میں بیرونی ممالک کے خلاف حکومت کے زیر اہتمام مظاہروں میں حصہ لینے سے انکار کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’ایران جیسی قوم جس کی تہذیب، ثقافت اور اپنے اندر رواداری کی ایک طویل تاریخ ہے، اس کی کبھی بھی کسی دوسری قوم یا تہذیب سے دشمنی نہیں رہی۔‘
رضا پہلوی نے ایرانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کی مذہبی حکمرانی نے بہت سے ایرانیوں کو بھی مذہب سے دور کر دیا ہے۔ میرے خیال میں مذہبی حکمرانی نے ایسی صورتحال پیدا کردی ہے جہاں لوگ مذہب سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ درحقیقت اس حکومت کے ایک سیاسی مذہب کو زبردستی بنانے اور عوام پر مسلط کرنے کی وجہ سے مذہبی جذبات کے بارے میں اور بھی بے حسی ہے۔‘

’ایرانیوں نے یہ مشکل سے سیکھا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ آج آپ نے دیکھا کہ ایران میں پرہیزگار بھی اس حکومت کو نہیں چاہتے ہیں کیونکہ وہ اس نقصان کو دیکھتے ہیں جو اس سے لوگوں کے عقیدے اور مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو پہنچتا ہے۔‘
رضا پہلوی نے پاسدران انقلاب کے اثر و رسوخ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو حکومت کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے ملک معاشی انفراسٹرکچر کو کنٹرول کرتی ہے۔ جیسا کہ وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے حالیہ تبصرے میں سامنے آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ خود ہی حکومت میں سے کوئی مغربی دنیا کی اس بے معنی توقع کو ختم کر رہا ہے کہ اعتدال پسند معاملات حل کرنے کے اہل ہوں گے اگر وہ کنٹرول کی پوزیشن میں ہوں۔ یہ آخر میں ایک مطلق العنان نظام ہے، جو ایک اعلیٰ رہنما کے فیصلے پر انحصار کرتا ہے۔‘
انہوں نے ایک منتخب یا آئینی بادشاہت کے ذریعے اپنے ملک کے لیے ایک جمہوری اور سیکولر نظام حکومت کی وکالت کی ہے۔
انہوں نے مستقبل میں ایران کے نظام حکومت کے حوالے سے کہا کہ ’جب تک مواد جمہوری ہے اس کی آخری شکل کے بارے میں حتمی فیصلہ ایرانی عوام نے کرنا ہے۔ اسی وجہ سے میں نے اپنے ساتھی ہم وطنوں خواہ وہ جمہوریت کے حامی ہیں یا بادشاہت کے، مستقبل میں اپنا بہترین ماڈل پیش کرنے کا کہا ہے۔‘
اس حوالے سے ایران کے ولی عہد نے مزید کہا کہ ’ایک بار جب حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو ہم منتقلی کی اس مدت کی توقع کرتے ہیں جہاں ایک عارضی حکومت کو ملکی معاملات سنبھالنا ہوں گے جبکہ ایک آئین ساز اسمبلی ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرے گی، جس پر ان تمام امور پر بحث کی جانی چاہیے۔ تاکہ ایران کے عوام یہ حتمی فیصلہ کرے کہ مستقبل کا تعین کیسے اور کیا جائے گا۔‘
رضا پہلوی کے مطابق وسیع تر علاقائی تعاون مشرق وسطی کو درپیش بہت سے گہرے چیلنجوں پر قابو پانے میں مدد کرے گا، جیسے ماحولیاتی تبدیلی اور پانی کی قلت۔
انہوں نے پانی کے بحران کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاسی بحران کو حل کرنے سے بہت پہلے ہمیں اپنے علاقے میں موجود پانی کے بحران کے بارے میں فکر کرنی چاہیے۔ یہ صرف ایران ہی نہیں ہے بلکہ بہت سارے دوسرے ممالک بھی پانی کے بحران سے دوچار ہیں۔‘
رضا پہلوی کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر آج کا ایران کا ایک مختلف ایران ہوتا تو آپ کو یمن میں میزائل بھیجنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ ہمارے پاس سائنسدان بشمول اسرائیلی ماہرین ہیں جو شعبے میں بہترین ہیں اور اپنے اپنے ممالک کے لیے پانی کے بحران کے حل کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘

شیئر: