Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جیونی کے ماہی گیر پر قسمت کی دیوی مہربان، 26 کلو وزنی قیمتی مچھلی کا شکار کر لیا

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معظم خان کا کہنا ہے کروکر کے بلیڈر کو چین، سنگا پور اور ہانگ کانگ میں خاص قسم کے سوپ میں استعمال کیا جاتا ہے (فوٹو: محکمہ ماہی گیری بلوچستان)
ایرانی سرحد سے متصل بلوچستان کے ساحلی شہر جیونی کے ایک ماہی گیر نے 26 کلو وزنی قیمتی سوا (کروکر) مچھلی کا شکار کر لیا ہے۔
جیونی کے ماہی گیر راشد رحیمی نے جیونی کے سمندر سے رواں ہفتے  قیمتی سوا مچھلی کا شکار کرلیا جو کہ چھ لاکھ 76 ہزار روپے میں جیونی کی منڈی میں نیلام ہوگئی ہے۔
کروکر مچھلی بابونسیم نامی بیوپاری نے خرید لی۔
رواں ہفتے میں جیونی کا یہ تیسرا خوش قسمت ماہی گیر ہے جس نے قیمتی مچھلی کروکر کا شکار کیا ہے۔  اس سے قبل رواں ہفتے کے دوران جیونی سے ماہی گیروں نے دو ایسی کروکر مچھلیاں پکڑیں جو 80 لاکھ روپے سے زائد میں فروخت ہوئی تھیں۔
ان مچھلیوں کا وزن 48 کلو اور 26 کلو تھا جسے ناخدا عبدالوحید اور ماہی گیر عبدالحق نے پکڑا تھا۔
گوادر کے علاقے جیونی میں تعینات محکمہ ماہی گیری کے انسپکٹر عبدالخالق نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ 48 کلو وزنی مچھلی کی بولی مقامی تاجر نے ایک لاکھ 80 ہزار روپے فی کلو کے حساب سے 86 لاکھ روپے کی لگائی۔

مچھلی کی اتنی زیادہ قیمت کی وجہ کیا؟

کروکر مچھلی کو مقامی بلوچی زبان میں 'کر' اور اردو میں 'سوا' کہتے ہیں۔
محکمہ ماہی گیری گوادر کے ڈپٹی ڈائریکٹر احمد ندیم نے قبل ازیں اردو نیوز کو بتایا تھا کہ کروکر مچھلی کے گوشت کی قیمت بھی عام مچھلیوں کی طرح دو سو روپے سے تین سو روپے فی کلو ہے۔ 'اصل قیمت کروکر کے اندر پائے جانے والے سفید رنگ کے ایئر بلیڈر کی ہے جسے بلوچی زبان میں پھوٹو کہتے ہیں۔ اس ایئر بلیڈر کی چین، سنگا پور، ہانگ کانگ اور کئی یورپی ممالک میں بڑی مانگ ہے۔'

کروکر مچھلی کی قیمتی ہونے کی وجہ اس کے اندر پائے جانے والے سفید رنگ کے ایئر بلیڈر ہے (فوٹو: محکمہ ماہی گیری بلوچستان)

احمد ندیم کے مطابق ایئر بلیڈر کا استعمال ادویات، خوراک اور سرجری میں استعمال ہونے والے دھاگوں میں ہوتا ہے۔ اسے جسمانی اور جنسی قوت بڑھانے اور ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس بلیڈر سے بننے والے دھاگے کو آپریشن کے بعد نکالنا نہیں پڑتا اور وہ انسانی جسم میں جذب ہوجاتا ہے۔
تاہم آبی حیات کے ماہر اور ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر معظم علی خان کا کہنا ہے کہ مچھلی کے بلیڈر کو چین، سنگا پور اور ہانگ کانگ وغیرہ میں خاص قسم کے سوپ میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ دو مرتبہ یہ سوپ پی چکے ہیں مگر اس میں ایسی کوئی خاص بات نہیں لگی۔ ’ہمارے ہاں عام شخص اسے شاید پینا بھی پسند نہ کریں مگر جسمانی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال ہونے والا یہ پرتعیش کھانا چین کے امراء کے لیے سٹیٹس سیمبل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ مہنگے ہوٹلوں میں کروکر مچھلی کے سوپ کے لیے بڑی سے بڑی قیمت بھی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔‘

شیئر: