گلگت بلتستان کے 28 نوجوان کمبوڈیا میں انسانی سمگلروں کا شکار کیسے بنے؟
گلگت بلتستان کے 28 نوجوان کمبوڈیا میں انسانی سمگلروں کا شکار کیسے بنے؟
منگل 25 نومبر 2025 5:38
فیاض احمد، اردو نیوز۔ پشاور
نوجوانوں سے کمبوڈیا میں غیرقانونی سائبر کرائم کے مراکز میں مجبوراً کام کروایا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو: آؤٹ سورس ایکسلیٹر)
پاکستان کے زیرِ انتظام گلگت بلتستان کے 28 نوجوان انسانی سمگلنگ کے شکار بن کر کمبوڈیا میں پھنس گئے ہیں جہاں انہیں نجی جیلوں میں رکھنے کا انکشاف ہوا ہے۔
نوجوانوں کو کمبوڈیا میں روزگار کا جھانسہ دے کر ویزا دلایا گیا تھا مگر وہاں پہنچنے کے بعد ان سے غیرقانونی سائبر کرائم کے مراکز میں مجبوراً کام کروایا جا رہا ہے۔
اہل خانہ کے مطابق نوجوانوں سے پاسپورٹ اور سفری دستاویزات چھین کر انہیں ایک سیل کے اندر محصور رکھا گیا ہے جہاں سے نکلنا انتہائی مشکل ہے۔
گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق کے مطابق کمبوڈیا میں محصور افراد کے اہل خانہ سے رابطہ کرکے تفصیلات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’نوجوانوں کو ویزا دینے والی کمپنی اور متعلقہ ایجنٹس کے بارے میں پوچھ گچھ کی جا رہی ہے، بہت جلد انکوائری مکمل کر کے کارروائی شروع کی جائے گی۔‘
گلگت بلتستان کے رہائشی یاسین علی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا بھتیجا 28 اپریل 2025 کو ورک ویزے پر کمبوڈیا گیا تھا۔
’انہیں دفترمیں نوکری کا جھانسہ دیا گیا تھا مگر وہاں جا کر ان سے جعلی کال سینٹر میں کام کروایا جا رہا ہے جہاں لوگوں سے فراڈ کر کے پیسے بٹورے جاتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ گلگت کے 27 مزید شہری کمبوڈیا کی ایک جعلی کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں، ان افراد سے پاسپورٹ اور سفری دستاویزات لے لی گئی ہیں تاکہ وہ کہیں نہ جا سکیں۔
کمبوڈیا میں موجود ایک اور متاثرہ خاندان کے سربراہ عالم شاہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ان کا بیٹا شدید جسمانی اور ذہنی تکلیف میں ہے۔ کمبوڈیا کی فراڈ کمپنی میں ان پاکستانیوں سے 15 گھنٹے تک مشقت کروائی جا رہی ہے، اور بات نہ ماننے پر ہاتھ باندھ کر تشدد کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کمبوڈیا میں قید بیشتر نوجوانوں کے ویزے ایکسپائر ہو چکے ہیں جس کے باعث ان کا اس ملک میں رہنا غیرقانونی ہے۔ حکومت سے مطالبہ ہے کہ ان نوجوانوں کی بحفاطت واپسی یقینی بنائے۔‘
سابق وزیر عبیداللہ بیگ نے مطالبہ کیا کہ متاثرہ نوجوانوں کو قونصلر اور قانونی معاونت فراہم کی جائے۔ (فائل فوٹو: اے پی)
اس حوالے سے گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے اوورسیز پاکستانی گوہر الماس خان کا کہنا تھا کہ ’روزگار کا لالچ دے کر گلگت بلتستان کے محنت کش نوجوانوں کو غیرقانونی طریقے سے کمبوڈیا لے جایا گیا تھا، تاہم اب آٹھ مہینے بعد ان نوجوانوں پر تشدد کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔‘
وزارت خارجہ سے مطالبہ
سابق وزیر و رکن گلگت بلتستان اسمبلی کرنل ریٹائرڈ عبیداللہ بیگ نے وزارتِ خارجہ سے مطالبہ کیا ہے کہ کمبوڈیا میں جعلی کمپنیوں کے ذریعے پھنسے ہوئے متعدد پاکستانی نوجوانوں کی فوری طور پر بحفاظت واپسی یقینی بنائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ متاثرہ نوجوانوں کے مقام اور موجودہ صورت حال کی فوری تصدیق کی جائے۔ انہیں قونصلر اور قانونی معاونت فراہم کی جائے تاکہ ان کی جلد از جلد واپسی ممکن ہو سکے۔ اور انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد اور ایجنٹوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
دوسری جانب وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام کا کہنا ہے کہ کمبوڈیا میں کال سینٹر قائم کیے گئے ہیں جن کے ذریعے بڑے پیمانے پر فراڈ کیے جاتے ہیں۔ کمبوڈیا کا ویزہ لے کر یہ نوجوان ملازمت کی غرض سے جاتے ہیں مگر وہاں جا کر انہیں حقیقت کا علم ہوتا ہے۔
حالیہ مہینوں میں ایف آئی اے نے متعدد انسانی سمگلرز گرفتار کیے ہیں۔ (فائل فوٹو: دی سٹیٹسمین)
ایف آئی اے کے مطابق پنجاب میں اس نیٹ ورک کے کئی ایجنٹنس قانون کے شکنجے میں آ چکے ہیں تاہم دیگر شہروں میں ان کے کارندوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ تاحال اس معاملے پر ابھی تک وزارت خارجہ کی جانب سے موقف سامنے نہیں آیا۔