Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مکانات کے انہدام کی اسرائیلی پالیسی کے خلاف نبرد آزما فلسطینی ماں

اسرائیلی سپریم کورٹ انہدام کے بارے میں حتمی فیصلہ جاری کرے گی۔ (فوٹواٹلانٹا جرنل)
فلسطینی خاتون ثنا شلبی کا کہنا ہے کہ جب تک گزشتہ ماہ اسرائیلی فوجیوں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں اس کے گھر پر چھاپہ نہیں ماراتھا، اس وقت تک انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس کا لاتعلق شوہرکہاں تھا۔
اے پی نیوز ایجنسی کے مطابق ثنا اسرائیلی حکام کو اس دو منزلہ مکان کے انہدام سے روکنے کے لئے قانونی جنگ لڑ رہی ہے جہاں وہ اپنے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔
اس کے باعث مکانات کے قابل سزا انہدام کی اسرائیلی پالیسی پر توجہ مبذول ہو رہی ہے جس کو حقوق کے گروپ اجتماعی سزا کے طور پر دیکھتے ہیں۔

خاتون دو منزلہ مکان گرانے سے بچانے کے لئے قانونی جنگ لڑ رہی ہیں۔ (فوٹو عرب نیوز)

اسرائیلی سیکیورٹی فورسز نے ثنا کے شوہر منتصر شلبی کو گرفتار کیا اور اس پر الزام لگایا کہ اس نے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے میں 2 مئی کو فائرنگ کی جس میں ایک اسرائیلی ہلاک اور دو دیگر زخمی ہوگئے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ گھروں کو مسمار کرنا حملہ آوروں کی روک تھام کا واحد راستہ ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے اس طرح کے انہدام پر تنقید کی ہے۔ تمام شلبیوں کے پاس امریکی شہریت ہے چنانچہ یہ معاملہ بحث کو پھر سے زندہ کر سکتا ہے۔ توقع ہے کہ اسرائیل کی سپریم کورٹ اگلے ہفتے انہدام کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ جاری کرے گی۔
ثنا اور ان کے شوہر کو ایک دہائی قبل جلاوطن کردیا گیا تھا۔ وہ نیو میکسیکو کے سانتا فے میں رہتا تھے جہاں وہ سگریٹ کی دکان چلاتے تھے۔۔
انہوں نے کہا کہ وہ فائرنگ کے واقعے کے بارے میں کچھ نہیں جانتیں۔ لوگ امریکہ میں اس سے بھی بدتر جرائم کرتے ہیں لیکن ان کے مکانات کو مسمار نہیں کیاجاتا۔
جس نے بھی جرم کیا اس کو سزا دی جانی چاہئے لیکن یہ سارے کنبے کا قصور نہیں۔

بے دخل کرنے کی مہم 11روزہ غزہ لڑائی کی ایک بنیادی وجہ تھی۔(فوٹو عرب نیوز)

حملے کے بعد فوجیوں نے گھر میں گھس کرلوٹ مار کی اوراس کے 17 سالہ بیٹے کو کچھ وقت کیلئے حراست میں لے لیا۔ انہوں نے بتایا کہ فوجیوں کے ساتھ ایک بڑا کتا تھا جس نے اسے اور اس کے دو بچوں 12 سالہ بیٹے اور 9 سالہ بیٹی کو خوف زدہ کردیا۔ اسرائیلی فوجی ہفتوں بعد گھر کے انہدام کے لئے نقشہ بنانے آئے تھے۔
اب ثنا کا کہنا ہے کہ اس کے بچے سارا  دن بستر پر گزارتے ہیں اور سکول جانے سے انکار کرتے ہیں۔
ہاموکڈ نامی اسرائیلی حقوق گروپ،اس وقت ثنا نمائندگی کررہا ہے۔ جس کا کہنا ہے کہ ایسی درخواستیں شاذ و نادر ہی کامیاب ہوتی ہیں۔
گروپ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ 2014 سے لے کر اب تک لائے گئے 83 واقعات میں سے صرف 10 مکانات کے انہدام کو روکاجا سکا ہے۔

فوجیوں نے گھر میں لوٹ مار کی اور17 سالہ بیٹے کو کچھ وقت کیلئے حراست میں رکھا۔(فوٹوعرب نیوز)

ہاموکڈ گروپ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جیسکا مونٹل کا کہنا ہے کہ آپ بے گناہوں کو اجتماعی طور پرمحض اس امید پر سزا نہیں دے سکتے کہ چونکہ وہ کسی مجرم سے وابستہ ہیں چنانچہ انہیں سزا دے کر آئندہ مجرموں کو جرائم سے روکا جاسکے گا۔ یہ ایک غیر قانونی اور غیر اخلاقی پالیسی ہے۔
یہودی آباد کاروں کی جانب سے مشرقی بیت المقدس میں درجنوں فلسطینی خاندانوں کو گھروں سے بے دخل کرنے کی مہم گزشتہ ماہ کی11روزہ غزہ لڑائی کی ایک بنیادی وجہ تھی۔
ثناشلبی کا کہنا تھا کہ وہ امریکی سفارتخانے سے مستقل رابطے میں رہتی ہیں لیکن سفارتخانہ نے واضح کر دیا تھا کہ وہ انہدام کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتا۔
اسرائیلی سپریم کورٹ ثنا کے کیس کی سماعت 17 جون کو کرے گی۔ ثنا امید کرتی ہیں کہ وہ اس گھر میں رہ سکیں گی جسے انہوں نے اور ان کے شوہر نے 2006 میں بنایا تھا۔
ثنا نے صحن کی طرف اشارہ کرکے پرانی یادوں پر مسکرا کر کہا کہ میری بڑی بیٹی کی کورونا وائرس کے دوران یہاں شادی ہوئی تھی۔ اس دوران یہ کسی بھی شادی ہال سے بہتر تھا۔
 

شیئر: