Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سید خاندان کا نوجوان ’سنتوش کمار‘ کیسے بنا؟

صبیحہ اور سنتوش کی جوڑی نے دو دہائیوں تک پاکستانی فلمی صنعت پر راج کیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
قیامِ پاکستان کے بعد کے برسوں کا ذکر ہے۔ نامور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو، شاعر احمد راہی اور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز ایک فلم کی منصوبہ بندی میں مصروف ہوتے ہیں۔ ہیرو کے رول کے لیے کمال نامی اداکار کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
ایک دن فلم کے پروڈکشن آفس میں مردانہ وجاہت اور مسحورکن آواز کا حامل ایک نوجوان کسی کام سے آتا ہے۔ ہدایت کار نے فطری ہیرو دکھنے والے اس نوجوان کو کمال کی جگہ ہیرو کا رول دینے کی پیش کش کردی۔
1950 میں ’بیلی‘ نام سے ریلیز ہونے والی یہ فلم شائقین سے بہت زیادہ مقبولیت نہ سمیٹ سکی مگر اس نے فلم انڈسٹری کو آنے والے دور کی سب سے مقبول اور مسحورکن فلمی جوڑی عطا کی۔
یہ پاکستانی فلمی صنعت کے اولین رومانوی فلمی جوڑے سنتوش کمار اور صبیحہ خانم کے فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کی داستان ہے۔
پاکستان بننے کے بعد ملک کی نوزائیدہ فلمی صنعت اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ انور کمال پاشا، ڈبلیو زیڈ احمد، مسعود پرویز اور شوکت رضوی جیسے فلم ساز بدلتے حالات اور موضوعات کو فلموں میں سمو رہے تھے۔
مردانہ وجاہت اور زبان و بیان کے حسن سے مالا مال سنتوش کمار دیکھتے ہی دیکھتے رومانوی ہیرو کے روپ میں  مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے لگے۔ یہاں تک کہ ان کا اصلی نام فلم کی سکرینوں، شائقین کے ذہنوں اور تاریخ کے صفحوں سے غائب ہوگیا۔

25  دسمبر 1925 کو اندرون لاہور کے ایک سید خاندان میں جنم لینے والا سید موسیٰ رضا سنتوش کمار کیسے بنا؟

اس سوال کے جواب کے لیے ہم ان کی قیام پاکستان سے قبل کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں۔
ان کے والد کاروباری شخصیت تھے۔ اپنے خاندان کے ساتھ حیدرآباد دکن منتقل ہوگئے تھے۔ موسیٰ رضا نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے گریجویشن کی۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے تحصیل دار کے عہدے کے لیے بھی منتخب ہوگئے تھے، مگر افتاد طبع اور مردانہ جمال کے باعث نوکری کے بجائے فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کر لی۔

پاکستان کی فلم انڈسٹری میں 50 اور 60 کی دہائی رومانوی فلموں کے عروج کے حوالے سے یاد رکھی جاتی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

معروف فلم ساز نذیر ان دنوں ممبئی کی فلم انڈسٹری سے منسلک تھے۔ موسیٰ رضا کے والد سے ان کی قربت کا تعلق تھا۔
نذیر کے مطابق ’انہوں نے نوآموز نوجوان کے شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی مدد کا فیصلہ کیا۔ پہلے ’سوسائٹی‘ اور پھر ’نئی کہانی‘ نامی فلموں کے ذریعے انہیں فلم نگری سے متعارف کروایا۔‘
معروف صحافی و کالم نگار مسعود اشعر نے موسیٰ رضا کے سنتوش کمار بننے کی وجوہات 1982 کے روزنامہ امروز میں کچھ یوں بیان کی ہیں۔
’اس زمانے میں مسلمان اداکار اپنا اصلی نام ظاہر کرنا معیوب خیال کرتے تھے۔ اشوک کمار اور دلیپ کمار اتنے مشہور ہو چکے تھے کہ ان کے نام پر اپنا فلمی نام رکھنا لوگ اپنی عزت اور نیک شگون سمجھتے تھے۔ موسیٰ رضا نے ممبئی کی فلمی زندگی میں اس روایت کے زیر اثر اپنا نام سنتوش کمار رکھ لیا۔
پاکستان کی فلم انڈسٹری میں 50 اور 60 کی دہائی رومانوی فلموں کے عروج کے حوالے سے یاد رکھی جاتی ہے۔ لاہور کی تہذیبی زندگی کو اجاگر کرنے والے حکیم احمد شجاع پاشا کے فرزند انور کمال پاشا ایک منجھے ہوئے فلم ساز تھے۔
انہوں نے اپنے والد کے ناول ’باپ کا گناہ‘ کی فلمی تشکیل ’دو آنسوؤں‘ کے نام سے کی۔ اس فلم میں سنتوش کمار کی دل موہ لینے والی اداکاری نے ان پر مقبولیت کے دروازے کھول دیے۔
ملکہ ترنم نور جہاں کی قیام پاکستان کے بعد بہ حیثیت اداکارہ اور گلوکارہ پہلی فلم ’چن وے‘ تھی جس میں ان کے مدمقابل سنتوش کمار نے ہیرو کا کردار ادا کیا۔ ماسٹر فیروز نظامی کی مدھر دھنوں اور استاد دامن کے رس بھرے گیتوں نے اسے یادگار فلموں کی صف میں لا کھڑا کیا۔

فلم ’چن وے‘ میں ملکہ ترم نورجہاں کے مدمقابل سنتوش کمار نے ہیرو کا کردار ادا کیا۔ (فوٹو: روزنامہ امروز)

’تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل‘ اور ’چن دیا ٹوٹیا دلاں دیا کھوٹیا‘ آج بھی مقبول موسیقی کا حوالہ ہیں۔
1953 میں سنتوش کمار اورسورن لتا کی فلم ’شہری بابو‘ نے دھوم مچا دی۔ اس فلم کی خاص بات ماسٹر عنایت حسین بھٹی کا صوفی گیت ’بھاگاں والیو نام جپو‘ کا نیا تجربہ تھا۔ رومانوی شاعری کے پہلو بہ پہلو صوفی شاعری کی فلموں میں شمولیت کا تجربہ خاصا کامیاب رہا۔
وارث لدھیانوی کے قلم سے نکلا یہ صوفی گیت ستر برسوں بعد بھی سدا بہار ہے۔ یہ فلم نامور گلوکارہ زبیدہ خانم کی پہلی فلم تھی۔
سنتوش کمار نے اپنے دور کی تمام خواتین اداکاروں کے ساتھ یادگار فلمی کردار ادا کیے۔ سورن لتا، شمیم آرا، شمی، مسرت نذیر، آشا بھوسلے، مینا شوری، اور راگنی  کے ساتھ ان کی درجنوں رومانوی فلموں نے شائقین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا ۔
مینا شوری کے ساتھ ان کی ایک فلم ’بیداری‘ کا ایک نغمہ آج بھی اہم قومی مواقع  پر سننے کو ملتا ہے۔
سلیم رضا کی آواز میں سنتوش پر فلمایا گیا نغمہ  ’آؤ بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی‘ میں پاکستان کے اہم مقامات اور ثقافت کو دکھانے کی کوشش کی گئی۔
سنتوش کمار اور صبیحہ کی جوڑی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں جذبات سے بھرپور رومانوی اداکاری کی روایت کی داغ بیل ڈالی۔ ’سر فروش‘ اور ’قاتل‘ نامی فلموں سے  اس خوبرو جوڑے کی جے جے کار ہونے لگی۔
1957 اس جوڑی کے لیے کامیاب فلموں کا سال تھا۔ ’عشق لیلی‘ وعدہ ’سردار‘ اور ’سات لاکھ‘ جیسی شاہکار فلموں نے دونوں کی شہرت آسمان کی بلندی تک پہنچا دی۔

خواجہ خورشید انور کے ساتھ ان کی فلموں ’انتظار‘ اور ’گھو نگھٹ‘ میں اداکاری پر سنتوش کمار کو بہترین اداکار کے ایوارڈ سے نوازا گیا (فوٹو: ٹوئٹر)

فلم ’سات لاکھ‘ میں معروف اداکارہ نیلو نےاپنی زندگی کا پہلا فلمی رول، جو کے ایک نوعمر پہاڑی لڑکی کا تھا، نبھایا۔
فلمی شاعر سیف الدین سیف کا مقبول گیت ’آئے موسم سہانے رنگیلے‘ اسی فلم  کی بدولت امر ہوگیا۔
عشق لیلی بلاشبہ ہماری فلمی تاریخ کی سب سے بڑی نغمہ اور فلم بھی کہی جا سکتی ہے، جس کے لازوال گیتوں نے شہرت دوام حاصل کی۔
برصغیر کے نامور میوزک ڈائریکٹر خواجہ خورشید انور کے ساتھ ان کی فلموں ’انتظار‘ اور ’گھو نگھٹ‘ میں اداکاری پر بہترین اداکار کا ایوارڈ بھی سنتوش کمار کے حصے میں آیا۔
جذبات میں ڈوبے مکالموں اور نکھرے  اور ستھرے لہجے نے ان کی شہرت سرحد پار پہنچا دی۔ خواجہ خورشید انور لکھتے ہیں کہ جب ان کی فلم ’انتظار‘ انڈیا میں ریلیز ہوئی تو وہاں کے اخبارات نے سنتوش کے فن کو سراہتے ہوئے اسے ’گاڈ ان دی سکرین‘ کا لقب دیا۔
رومانوی ہیرو کی پہچان رکھنے والے اس فنکار نے ’سرفروش‘ نامی ایکشن فلم میں بھی کام کیا اور فلمی شائقین سے خوب داد سمیٹی۔ انور کمال پاشا کی یہ فلم آپنے زور دار مکالموں کی وجہ سے فلم بینوں کے دل و دماغ پر چھا گئی۔

سنتوش اور صبیحہ 1958 میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ یہ سنتوش کی دوسری شادی تھی۔ (فوٹو: روزنامہ امروز)

سنتوش کمار اس فلم میں ایک چور کا کردار ادا کرتے ہیں۔ نامور فلمی مصنف علی سفیان آفاقی کی کتاب ’فلمی الف لیلی‘ کے مطابق جب ہیرو چوری کی نیت سے ایک گھر میں داخل ہوتا ہے۔ سامان سمیٹ کر چلنے لگتا ہے تو اذان کی آواز سن کر وہی نماز پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی دوران ہیروئن کی آنکھ کھل جاتی ہے، اس کے استفسار کے جواب میں سنتوش کمار کا مکالمہ ’چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض‘ اتنا مقبول ہوا کہ آج بھی ایک حوالے اور استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
مشہور فلم ڈائریکٹر ڈبلیو زیڈ احمد کی فلم ’وعدہ‘ سنتوش کمار کے لیے دو حوالوں سے اہم تھی۔ اس کے ذریعے نہ صرف انہوں نے فلمی اداکاری کا معتبر ایوارڈ ’نگار‘ جیتا بلکہ اس کی شوٹنگ کے دوران انہوں نے صبیحہ خانم کا دل بھی جیت لیا۔
صبیحہ خانم کا اصل نام مختار بیگم اور  تعلق گجرات کے ایک لوک فنکار گھرانے سے تھا۔ ان کے والد محمد علی کو ماہیا گانے کی وجہ سے محمد علی ماہیا کہا جاتا تھا۔ اداکاری کا شوق انہیں لاہور لے آیا۔ تھیٹر کے ہدایتکار نفیس خلیلی کے ڈرامے بت شکن میں اداکاری سے فنکارانہ زندگی کا آغاز کیا اور متاثرکن اداکاری پر نفیس خلیلی نے مختار بیگم کو صبیحہ خانم کا نام دیا۔
سنتوش اور صبیحہ 1958 میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ یہ سنتوش کی دوسری شادی تھی۔ ان کی پہلی بیوی جمیلہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں جس نے خوش دلی سے صبیحہ کو قبول کرلیا۔
عمر بھر دونوں میں مثالی تعلقات قائم رہے، یہاں تک کہ سنتوش کے انتقال کے بعد امریکہ جانے سے چند برس قبل وہ جمیلہ بیگم کے ساتھ ہی رہائش پذیر رہیں۔
صرف صبیحہ اور سنتوش کی جوڑی ہی نہیں بلکہ یہ سارا گھرانہ فلم سے وابستہ رہا ہے۔ ایک ہی خاندان کے اتنے سارے افراد کے فلموں میں نمایاں ہونے کی شاید ہی کوئی دوسری مثال موجود ہو۔

 2010 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے سنتوش کمار کو بعد از مرگ ستارہ امتیاز کا ایوارڈ عطا کیا۔ (فوٹو: فیس بک)

عشرت رضا سنتوش کمار کے چھوٹے بھائی تھے۔ فلم عدل جہانگیری میں ان کا نام درپن پڑا۔ اور یہی نام  تاحیات تعارف اور شہرت کا باعث بنا۔ ملکہ جذبات کے نام سے جانی جانے والی اداکارہ  نیرہ  سلطانہ درپن کی بیوی تھی۔ ان کے تیسرے بھائی ایس سلیمان پاکستانی فلمی صنعت کے کامیاب فلم ساز تھے اور ان کی شادی معروف کلاسیکل رقاصہ بیگم زرین پنو سے ہوئی ہے۔
بیگم زرین پنو نے اردو نیوز سے سنتوش کمار کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کے وہ سارے خاندان کے لیے ایک چھتری کی مانند تھے۔
’اپنے بھائیوں کو نہ صرف شوبز میں آگے بڑھایا بلکہ ان کی نجی زندگی میں تمام ضروریات کا خیال رکھنے والے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ سنتوش کمار محض اداکار نہ تھے بلکہ ایک مثالی ذہن اور بے مثال علم کے مالک تھے۔ ’یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف پروگرام نیلام گھر میں شرکت کی اور کار کا انعام بھی جیتا تھا۔‘
پاکستانی فلموں میں رومانویت کی جو روایت سنتوش سے  چلی تھی آنے والے برسوں میں محمد علی، وحید مراد اور ندیم نے اسے مزید آگے بڑھایا۔ ستر کی دہائی سے ہماری فلموں کے موضوعات اور انداز میں تبدیلی آنا شروع ہو گئیں۔
اس تبدیلی نے سنتوش اور ان کے ہم عصر اداکاروں کو کیسے متاثر کیا۔ اس کے بارے میں مسعود اشعر لکھتے ہیں۔ ’سنتوش، علاوالدین اور اجمل جیسے فنکار ایک خاص ماحول اور مزاج کی پیداوار تھے۔ جب وہ ماحول ختم ہوا تو فلمی صنعت میں فنکار کم اور پھلوان زیادہ آنے لگے۔ ان کے سامنے سنتوش جیسا نرم  مزاج انسان کیسے قائم رہ سکتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنے آپ کو اس اکھاڑے سے نکالنا شروع کر دیا۔‘

صبیحہ نے  سنتوش کے بغیر زندگی کے 38 برس گزارے اور 13 جون 2020 کو امریکہ میں ان کا انتقال ہوا۔ (فوٹو: فیس بک)

1971  میں فلم ’گھرہستی‘ کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو بتدریج فلموں سے دور کرنا شروع کر دیا۔ وہ لاہور کے ایک ادارے کے ساتھ بحیثیت  سیلز ڈائریکٹر منسلک ہوگے۔
نامور فلمی ہیرو محمد علی کے بعد وہ دوسرے سپر سٹار تھے جنہوں نے 1976 میں پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم ان کا یہ تعلق خاموشی اور پچھلی صفوں کا تھا۔ ان کی نسبت محمد علی کو  اپنے سرگرم کردار کی وجہ سے قید و بند کی مشقت بھی برداشت کرنا پڑی۔
 2010 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے سنتوش کمار کو بعد از مرگ ستارہ امتیاز کا ایوارڈ عطا کیا۔
ان کی آخری فلم ’دیوانے دو‘ میں اداکارہ بابرہ شریف ہیروئن تھی۔ یہ فلم ان کی وفات کے بعد 1985 میں ریلیز ہوئی۔
دلکش مکالموں اور دلسوز انداز  والےسنتوش  کمار نے 11 جون 1982 کو لاہور میں آخری سانسیں لیں۔ دماغ کی شریان پھٹ جانے کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔
ان کے چھوٹے بھائی  درپن کا انتقال ان سے ایک برس قبل ہوچکا تھا۔ تیسرے بھائی ایس سلیمان کا انتقال 2021 میں ہوا۔
سنتوش کمار نے 35 برس کی فلمی زندگی میں 85 کے قریب فلموں میں کام کیا۔ ان کا پہناوا اپنے دور کا فیشن بن جاتا تھا۔ نوجوان سنتوش کے لہجے میں مکالمہ کرنا فخر سمجھتے تھے ۔
صبیحہ خانم سے ان کے تینوں بچے امریکہ میں مقیم ہیں۔ جبکہ جمیلہ بیگم کے بیٹے محسن رضا لاہور میں اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے کا نام اپنے دادا کے نام پر موسی رضا ہے۔ وہ سنتوش کمار کے برانڈ نام سے ملبوسات اور فیشن کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
صبیحہ اور سنتوش نے دو دہائیوں تک پاکستانی فلموں پر راج کیا۔ صبیحہ نے  سنتوش کے بغیر زندگی کے 38 برس گزارے اور 13 جون 2020 کو امریکہ میں ان کا انتقال ہوا۔
اس مقبول عام جوڑی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ’جب سنتوش اور  صبیحہ کی جوڑی بنی تو لوگ اشوک کمار اور لیلا جٹنس کی جوڑی کو یاد کیا کرتے تھے۔‘

شیئر: