Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈرامہ ’دوسرا چہرہ‘: ’ریئل لائف رِیل لائف جیسی نہیں ہوتی‘

ایک ہوتی ہے ریئل لائف اور پھر ایک ہوتی ہے ریل لائف۔۔ کچھ سمجھے کیا؟
چلیں اگر نہیں سمجھے تو ہم آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور فیسبک اور انسٹاگرام  پر اپنا اکاؤنٹ بھی بنا رکھا ہے تو یقیناً ان پر موجود ریلز بھی دیکھتے ہی ہوں گے۔
ان ریلز میں زیادہ تر لوگ اپنی زندگی کا وہ رُخ پیش کر رہے ہوتے ہیں جو ان کی رئیل یعنی اصل زندگی کے برعکس ہوتا ہے۔
کسی کی ریل، سٹوری یا پوسٹ دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اس دھرتی کا سب سے خوش قسمت انسان ہے جو ایک آئیڈیل زندگی جی رہا ہے تو کسی کا کانٹینٹ دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ اس کی زندگی میں تو سب کچھ اتنا سیٹ ہے، یہ تو کبھی اُداس بھی نہیں ہوتا ہوگا۔
لیکن کیا ہے نا کہ ایسا ہوتا نہیں۔ یہ تو تصویر کا وہ رُخ ہے جو صرف آپ کے ہمارے سامنے دکھایا جا رہا ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اصل زندگی بھیانک ہی ہو لیکن وہ اتنی پرفیکٹ بھی نہیں ہوتی۔
یہی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے ڈرامہ ’دوسرا چہرہ‘ میں۔
شادی کے بعد پہلی صبح حمزہ اپنی بیوی زارا کے لیے خود ناشتہ تیار کر رہا ہے، اُس کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کر رہا ہے۔ ہے نا سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لیے ایک بہترین ریل؟ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے ہیں اور یہ حسین منظر قید ہو جاتا ہے موبائل فون کے کیمرے میں۔
کیمرے کے پیچھے اب وہی حمزہ ہے اور وہی زارا لیکن ان کے چہروں پر وہ مسکراہٹیں نہیں۔
وہ ایک دوسرے سے اُلجھ رہے ہیں، تلخ باتیں سُنا رہے ہیں، اپنا موقف سمجھانے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں لیکن بحث جھگڑے میں بدل چکی ہے۔ کچھ دیر پہلے تک ’آئیڈیل کپل‘ لگنے والا جوڑا اب ایک روایتی میاں بیوی سے کچھ مختلف نہیں دِکھ رہا۔
لیکن ان دونوں کی ریلز دیکھنے والے ان سے متاثر ہوئے بنا رہ نہیں پاتے۔ کومل بھی انہی سوشل میڈیا صارفین میں سے ایک ہے جو سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے طرزِ زندگی سے مرعوب ہو جاتے ہیں، اپنی زندگی کا موازنہ کرنے لگتے ہیں اور پھر احساسِ کمتری کا شکار ہو کر اُداس رہنے لگتے ہیں۔

کومل کی زندگی اگرچہ سادہ ہے لیکن اس میں بہت کچھ ایسا ہے جو زارا کی زندگی میں نہیں۔ ایک محبت کرنے والا شوہر جو اس کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال کرتا ہے۔ لیکن وہ اپنی معمولی ملازمت کی وجہ سے راتوں رات کومل کو ویسا لائف سٹائل فراہم نہیں کر سکتا جس کے وہ خواب دیکھتی ہے۔ کومل شادی کے تین برس بعد بھی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار نظر آتی ہے لیکن سلمان اُسے اس ’محرومی‘ کے احساس سے نکالنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔
زارا اور حمزہ ایک چھت کے نیچے دو مختلف زندگیاں جیتے نظر آتے ہیں۔ ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہوئے بھی ان کے درمیان فاصلے نظر آتے ہیں۔ زارا اپنے فون کی سکرین میں گُم رہتی ہے اور حمزہ یہ چاہتا ہے کہ وہ اُس کے ساتھ معیاری وقت گزارے لیکن جب ایسا نہیں ہو پاتا تو دونوں میں تکرار شروع ہو جاتی ہے۔
ڈرامے کی چوتھی اور آخری قسط میں کومل یہ بات سمجھ جاتی ہے کہ اُسے اپنی زندگی میں جو خالی پن محسوس ہوتا ہے وہ اپنی زندگی کا سوشل میڈیا پر دکھنے والی دوسروں کی مصنوعی زندگیوں سے موازنے کی وجہ سے تھا۔
دوسری طرف زارا بھی کیمرے سے دور رہ کر اپنی زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیتی ہے اور حمزہ کو بھی سمجھاتی ہے کہ ان کی گھریلو زندگی صرف ان کی اپنی ہونی چاہیے دوسروں کو اس کا حصّہ نہیں بنانا چاہیے۔
’دوسرا چہرہ‘ ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والے منظر سے پہلے اور بعد میں بھی ایک منظر ہوتا ہے۔
چار اقساط پر مشتمل اس ڈرامے میں بہت سے لوگوں کو اپنی زندگیوں کی جھلک بھی نظر آئے گی جو یا سوشل میڈیا سکرول کر رہے ہوتے ہیں یا پھر ریلز کے لیے کانٹینٹ بنا رہے ہوتے ہیں۔

’سوشل میڈیا پر ہر چیز کو سرخی پاؤڈر لگا کر پیش کیا جاتا ہے‘

ڈیجیٹل کانٹینٹ کریئیٹر عبدالحی صدیق سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر دوہرے معیار دکھائے جاتے ہیں۔ ’انفلوئنسرز کی زندگی میں کچھ بھی مسائل چل رہے ہوں لیکن سوشل میڈیا پر انہیں دیکھ کر عام لوگوں کے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ ان کی زندگی بہت اچھی ہے لیکن ہوتا اس کے بالکل برعکس ہے۔‘
اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ جو دِکھتا ہے وہ بکتا ہے تو یہاں بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ سوشل میڈیا پر ’ہر چیز کو سرخی پاؤڈر لگا کر‘ پیش کیا جاتا ہے۔
’ہمارا معاشرہ بھی دِکھاوے کا معاشرہ ہے اور اسے کنٹرول کرنے کی بہت ضرورت ہے کیونکہ جو لوگ ان انفلوئنسرز کو دیکھ کر احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں وہ پھر انزائٹی اور ڈپریشن میں بھی چلے جاتے ہیں۔‘

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ اپنے بہت سے رشتے اور بھی اس چکر میں خراب کر بیٹھتے ہیں کیونکہ وہ ان انفلوئنسرز جیسا بننا چاہ رہے ہوتے ہیں۔
’اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ کچھ انفلوئنسرز اپنی خواتین کو پانچ لاکھ ، دس لاکھ تک کے تحائف دے رہے ہوتے ہیں، کبھی کوئی ہیرے کی انگوٹھی دے رہا ہوتا ہے جیسے کہ ابھی پچھلے دنوں ایک ٹیوبر نے اپنی بیگم کو چار لاکھ کا پھولوں کا گلدستہ تحفے میں دیا تو یہ سب دِکھاوے کے لیے ہوتا ہے۔‘
عبدالحی صدیق کا کہنا تھا کہ ’اس کی وجہ سے وہ جوڑے جو اپنی زندگی میں خوش ہوتے ہیں، کہیں نہ کہیں ان کے دماغ میں یہ بات آ جاتی ہے کہ شاید ہم میں کوئی کمی ہے، ہمارے ساتھ یہ پرنسز ٹریٹمنٹ کیوں نہیں۔ ان کی توقعات بڑھنے لگتی ہیں۔‘

’سوشل میڈیا پر زندگی کے چیلنجز نہیں دکھائے جاتے‘

لوگ آخر سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی زندگی سے اتنے متاثر کیوں ہو جاتے ہیں اس سوال کا جواب جاننے کے لیے اردو نیوز نے ماہر نفسیات وقار احمد سے رابطہ کیا۔
وقار احمد سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والی ریلز، ویڈیوز وغیرہ میں چونکہ چیلنجز نہیں دکھائے جا رہے ہوتے اس لیے وہ اچھی لگ رہی ہوتی ہیں۔
’مثال کے طور پر جب ماضی کو یاد کرتے  ہیں تو ہمیں وہ اچھا لگ رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ وہی ماضی جب حال ہوتا ہے اور وہ وقت گزر رہا ہوتا ہے تو وہ ہمیں اتنا خوشگوار نہیں لگ رہا ہوتا کیونکہ وہ چیلنجز سے بھرپور ہوتا ہے۔ جب وہ وقت ماضی بن جاتا ہے تو وہ چیلنجز چونکہ وقتی ہوتے ہیں تو وہ مائنس ہو جاتے ہیں کیونکہ ان سے ہم نبردآزما ہو چکے ہوتے ہیں تو پیچھے وہی اچھی یادیں رہ جاتی ہیں۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایسا ہی ہے کہ ہم کہیں سیر کے لیے نکلیں تو اس ٹرپ سے زیادہ اس کی یاد کو انجوائے کرتے ہیں۔ جب ہم ٹرپ پر نکلے ہوتے ہیں تو اس میں چیلنجز ہوتے ہیں کہ ہمیں فلاں جگہ پہنچنا ہے، پیٹرول ڈلوانا ہے وغیرہ۔ یہ سب کچھ چونکہ ہو چکا ہوتا ہے تو ہمارے لیے یاد کرنے کو وہ جھرنیں، جھیلیں اور آبشاریں رہ جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر آپ جو کچھ بھی دیکھتے ہیں تو ان میں کسی چیلنج کا ذکر نہیں ہوتا کہ کون سی چیز کیسے حاصل کی گئی۔‘
وقار احمد سمجھتے ہیں کہ ’جب ہم بہت زیادہ اس طرح کی چیزیں دیکھنا شروع کر دیں ہمیں اپنی زندگی بہت مشکل نظر آنے لگتی ہے کیونکہ یہ چیلنجز سے بھرپور ہوتی ہے۔ اب ہوتی تو ان (انفلوئنسرز) کی بھی چیلنجز سے بھرپور ہے لیکن جیسے مثال کے طور پر کوئی کسی ٹوؤر پر نکلا ہو تو پورا دن بائیک پر خوار ہوتا رہے لیکن جب تصویر اپ لوڈ کرے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کتنے خوش قسمت لوگ ہیں۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان مشکلات کو تو شیئر کرتا ہی نہیں جو اس سب کے دوران پیش آتی ہیں۔‘
وقار احمد کہتے ہیں کہ ’اسی طرح سوشل میڈیا پر چونکہ مومنٹس بنائے جاتے ہیں تو اس کے پس منظر سے کوئی آگاہ نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ سب اچھا لگ رہا ہوتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ اسی دنیا میں رہنے لگ جاتے ہیں یعنی آپ ریلز میں بار بار انہی لوگوں کو دیکھے جا رہے ہیں تو رئیلٹی (حقیقت) سے آپ کٹ جاتے ہیں اور پھر جب آپ حقیقی دنیا میں واپس آتے ہیں تو آپ کو اپنی زندگی کے چیلنجز اپنے قد سے کہیں زیادہ بڑے لگنے لگتے ہیں۔‘

وقار احمد سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو اپنی زندگی میں معنویت چاہیے ہوتی ہے جو کہ ضروری بھی ہے۔ ’اپنی زندگی کے لیے معنویت ہر انسان نے خود تراشنا ہوتی ہے تو یہ سب چیزیں بھی لوگوں کی زندگی کو بامعنی بنا رہی ہوتی ہیں۔ اب چاہے یہ بہت سطحی کیوں نہ ہوں لیکن یہ آپ کے برے وقتوں میں آپ کو خوشی دے رہی ہوتی ہیں۔ تو یہ ریلیز، ویڈیوز وغیرہ آپ کو مشکل زندگی میں کہیں نہ کہیں سکون دے رہی ہوتی ہیں اگرچہ یہ سطحی اور لانگ ٹرم میں نقصان دہ ہوتے ہیں۔‘

لوگ اپنی زندگیوں کو مصنوعی انداز میں کیوں دکھاتے ہیں؟

سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اپنی زندگیوں کو مصنوعی انداز میں کیوں پیش کرتے ہیں اس سوال کا جواب وقار احمد نے کچھ یوں دیا کہ:
’جب انسان سروائیول موڈ سے نکلتا ہے تو اس کی سب سے پہلی اور بنیادی ضرورت شناخت (آئیڈینٹیٹی) ہوتی ہے۔ تو لوگ جو کانٹینٹ بنا رہے  ہوتے ہیں دراصل اسی شناخت کے چکر میں ایسا کر رہے ہوتے ہیں۔ اب یہ ہر فرد پر منحصر ہے کہ وہ علمی طور پر ذہنی طور پر کتنا پختہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انفلوئنسرز ریلز میں اپنی زندگی کو مصنوعی بنا کر پیش کر رہے ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنی شناخت کو پوزیٹیو دکھا سکیں۔‘

 

شیئر: