Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی کا تیسرا بجٹ:ترین گروپ کی خوشی، اپوزیشن کا ’رسمی احتجاج‘

بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان کی خاصی تعداد ایوان سے غیرحاضر رہی (فوٹو: نیشنل اسمبلی)
گزشتہ کئی ہفتوں کی ہنگامی سیاسی تیاریوں کے بعد بالآخر گیارہ جون کا وہ دن آ ہی گیا جب حکومت نے آئندہ مالی سال کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرنا تھا۔  یہ پی ٹی آئی حکومت کا تیسرا بجٹ تھا جیسے اس حکومت کے چوتھے وزیرخزانہ نے پیش کیا۔ پورے ملک کے سالانہ خرچ اور آمدنی کا معاملہ عوام کے لیے تو اہم ہوتا ہی ہے صحافیوں کی اس میں خاص دلچسپی ہوتی ہے کیونکہ  بجٹ دستاویزات میں درجنوں اہم خبریں پوشیدہ ہوتی ہیں۔
ہم بھی دیگر صحافیوں کے ساتھ بجٹ اجلاس کی کوریج کے لیے پہنچے تو راہداریوں میں معمول سے زیادہ رش تھا۔ سب سے زیادہ اس کمیٹی روم کے باہر تھا جہاں حکومتی اتحاد کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہو رہا تھا۔ باہر ایک ٹیبل پر تمام ارکان کے موبائل فون رکھے تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ حکومت نہیں چاہتی کہ اجلاس کی کارروائی باہر جائے۔
تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور ترین گروپ کے نامزد ’پارلیمانی رہنما‘ راجہ ریاض باہر نکلے تو صحافیوں نے انہیں گھیر لیا۔
یاد رہے کہ بجٹ اجلاس سے چند ھفتے قبل حکمران جماعت میں ترین گروپ کے سامنے آنے سے حکومت شدید دباؤ میں آ گئی تھی۔
گروپ دراصل پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کے خلاف جعلی اکاونٹس اور شوگر سکینڈل میں ایف آئی اے کی کارروائی کے ردعمل میں سامنے آیا تھا اور اس کا موقف تھا کہ جہانگیر ترین کو انصاف نہیں مل رہا۔ تاہم حکومت اور وزیراعظم عمران خان کی مشکل یہ تھی کہ 30 سے زائد ارکان قومی و صوبائی اسمبلی پر مشتمل ترین گروپ اگر حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیتا تو بجٹ پاس کروانا مشکل ہو جاتا۔
اس لیے ہنگامی بنیادوں پر وزیراعظم عمران خان کو گروپ کے ارکان سے ملاقات کرنی پڑی جس کے بعد جہانگیر ترین کے خلاف کیسز کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے وزیراعظم نے  سینیٹر علی ظفر کی سربراہی میں ایک رکنی  کمیٹی نامزد کر دی تھی جسے وزیراعظم کو رپورٹ پیش کرنا تھی۔ 
کمیٹی کی رپورٹ تو منظر عام پر نہ آئی تاہم جمعہ کو جہانگیر ترین اور ان کے صاحبزادے علی ترین کی عبوری ضمانت کے کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا ہے کہ ’ہمیں جہانگیر ترین سے مزید تحقیقات کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی انہیں گرفتار کرنے کا ارادہ ہے۔‘

بجٹ تقریر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس پیر 14 جون کی سہ پہر تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا (فوٹو: نیشنل اسمبلی)

شاید یہی وجہ تھی کہ راجہ ریاض صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے گروپ کے ہمراہ حکمران اتحاد کے پارلیمانی اجلاس میں شرکت کی تھی۔ ہم سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ بجٹ پاس کروانے میں حکومت کی مدد کریں گے۔ ’ہم نے جہانگیر ترین کے لیے انصاف مانگا تھا جو مل گیا اس پر وہ وزیر اعظم کے شکرگزار ہیں۔‘
وزیراعظم کا شکریہ ادا کرنے پر صحافیوں نے جھٹ پوچھا تو کیا آپ کوا ین آر او مل گیا ہے تو انہوں نے جواب دیا ’آپ بے شک اسے این آر او سمجھتے رہیں، ہم اس کو انصاف کہتے ہیں۔ جو عدالت سے ملا ہے‘۔
ان سے بات چیت کے بات آگے پہنچے تو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے چیمبر کے باہر بھی ایک جھمگٹا لگا تھا۔ پتا چلا اجلاس سے کچھ دیر قبل مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف نے سینئر پارٹی رہنما ایاز صادق کو پیغام دے کر پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کے پاس بھیجا تھا جس کے بعد بلاول بھٹو اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں شہباز شریف سے ملاقات کے لیے آ گئے تھے۔
کچھ دیر بعد دونوں رہنما چیمبر سے نکل کر  ایک ساتھ ایوان میں داخل ہوئے اور اجلاس ختم ہونے کے بعد ایک ساتھ ہی روانہ بھی ہوئے ۔ گویا دونوں نے مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق کر لیا تھا۔ 
اجلاس میں پہنچے تو وزیرخزانہ کی تقریر شروع ہو گئی تھی اور اس کے ساتھ ہی اپوزیشن نے اپنی نشتوں پر کھڑے ہو کر احتجاج شروع کر دیا تھا۔

راجا ریاض کے مطابق ’ہم نے جہانگیر ترین کے لیے انصاف مانگا جو مل گیا اس پر وہ وزیر اعظم کے شکرگزار ہیں‘ (فوٹو: قومی اسمبلی)

مسلم لیگ نواز کے رہنما مرتضی جاوید عباسی نے پہلے سے لکھے ہوئے پلے کارڈز ارکان میں تقسیم کیے جن پر مہنگائی کے حوالے سے حکومت کے خلاف نعرے درج تھے۔ پھر کیا تھا ایک طرف وزیرخزانہ تقریر کر رہے تھے اور دوسری طرف اپوزیشن کی نعرے بازی۔۔
اجلاس کے اندر تو وزیرخزانہ کی تقریر کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ انہوں نے خود بھی ہیڈفونز لگا رکھے تھے اور وزیراعظم عمران خان نے بھی ۔
وزیرخزانہ شاید اس طرح کے احتجاج کے عادی نہیں تھے اس لیے شروع شروع میں ان کے الفاظ لڑکھڑا رہے تھے تاہم بعد میں سنبھل گئے۔
اجلاس کے دوران اپوزیشن نے احتجاج تو کیا مگر گزشتہ سالوں کی طرح سپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ نہیں کیا نہ بجٹ دستاویزات پھاڑیں۔
پریس گیلری میں بیٹھے کچھ صحافیوں نے اسے پھیکا سا رسمی احتجاج قرار دیا۔ پتا نہیں اسے پھیکا احتجاج کہنا درست ہے یا نہیں تاہم یہ بات سب نے نوٹ کی کہ اپوزیشن بنچوں پر درجنوں کرسیاں خالی تھیں۔ ایک صحافی نے گنتی کر کے کہا کہ اپوزیشن کے 110 سے کم ارکان ہاؤس میں موجود ہیں اور تقریبا 50 کے قریب ارکان اجلاس سے غائب ہیں۔
اپوزیشن نے جب دیکھا کہ اس کے احتجاج کی کوریج سرکاری ٹی وی کا کیمرا نہیں کر رہا اور صرف حکومتی ارکان فریم میں آ رہے ہیں تو  مریم اونگزیب، امینہ خورشید عالم اور محسن شاہنواز رانجھا  سمیت چند ارکان نے فیصلہ کیا کہ حکومتی بینچوں کے پیچھے کھڑے ہو کر احتجاج کریں۔
اس پر حکومتی بنچوں سے خواتین عاصمہ حدید اور شاندانہ گلزار کی قیات میں فورا وہاں پہنچ گئیں اور تلخ جملوں کے تبادلے کے بعد شاندانہ گلزار اور عاصمہ حدید نے مریم اورنگزیب اور دیگر لیگی خواتین سے پلے کارڈز بھی لے کر پھاڑ دیے۔ تاہم سپیکر کی جانب سے سرجنٹ ایٹ آرمز (اسمبلی کے سیکورٹی گارڈز) بلانےپر اپوزیشن ارکان وہاں سے چلے گئے اور اپنی نشتوں پر جا کر پھر نعرے بازی شروع کر دی۔
اجلاس میں کچھ دلچسپ مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔  وزیراعظم کی عقبی نشت پر وفاقی وزیر مراد سعید براجمان تھے جن سے اپوزیشن ارکان علی گوہر، مہناز عزیز، نوشین افتخار اور مائزہ حمید پہلے گپیں لگاتے رہے، پھر ان کی طرف اشارے کرکے نعرے بازی کرتے رہے مگر مراد سعید جوابا مسکراتے رہے۔ اس دوران اپوزیشن ارکان نعرے لگانے سے تھک جاتے تو مراد سعید ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔

شیئر: