Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ محفوظ رہ سکیں گے؟

سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا حکومت اور الیکشن کمیشن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کی قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ایک بار پھر ترمیم کرتے ہوئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
قومی اسمبلی میں پاس ہونے والے بل میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 94 میں ترمیم کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’الیکشن کمیشن ملک میں ہونے والے انتخابات میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے اقدامات کرے گا۔ اس مقصد کے لیے الیکشن کمیشن نادرا کی مدد سے ایسا نطام وضع کرے گا جو تکنیکی اعتبار سے موثر، خفیہ، محفوظ اور معاشی اعتبار سے قابل قبول ہو۔‘
اس قانون کے تحت ’سمندر پار پاکستانی وہ شخص ہے جس کے پاس نادرا کا شناختی کارڈ موجود ہے اور وہ مستقل یا عارضی بنیادوں پر کسی دوسرے ملک میں رہ رہا ہے یا کام کر رہا ہے اور اسے پاکستان سے گئے ہوئے چھ ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔‘
سنہ 2017 میں ہونے والی انتخابی اصلاحات کے نتیجے میں منظور ہونے والے الیکشن ایکٹ میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن کو انٹرنیٹ ووٹنگ کے ذریعے ملک میں 35 حلقوں کے ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دینے کا کہا گیا تھا، جس کے تحت الیکشن کمیشن نے نادرا کی مدد سے انٹرنیٹ ووٹنگ کے ذریعے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کے انتظامات کیے۔
الیکشن کمیشن نے اس پائلٹ پروجیکٹ کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹنگ میں حصہ لینے کے حوالے سے اپنی جائزہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ 35 حلقوں سے تعلق رکھنے والے چھ لاکھ 31 ہزار سے زائد ووٹرز میں سے صرف 7364 ووٹرز نے خود کو ووٹ دالنے کے لیے رجسٹر کیا جبکہ 6233 نے ووٹ کاسٹ کیا۔
متحدہ عرب امارات میں 1654، سعودی عرب میں 1451، برطانیہ 752، کینیڈا میں 328 اور امریکہ میں 298 پاکستانیوں نے اپنے اپنے حلقوں میں ووٹ ڈالا۔

سنہ 2018 میں 35 حلقوں میں 6233 اوورسیز پاکستانیوں نے ووٹ کاسٹ کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر محمد زمان نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’سمندر پارپاکستانیوں کی پائلٹ منصوبے کے تحت ضمنی انتخابات میں ووٹنگ میں دلچسپی کو مدنظر رکھیں تو بظاہر یہ ایک سیاسی چال یا نعرہ ہی لگتا ہے لیکن اگر سمندر پار پاکستانیوں کو اپنے ملک سے جوڑ کر رکھنا ہے تو اس کے لیے انھیں یہ حق دینا تو پڑے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ اپنے بیرون ملک مقیم شہریوں کو اپنے معاشرے کے ساتھ جوڑنے کا ایک ذریعہ ہوگا۔ اگر یہ رابطہ نہیں بنے گا تو ان کا معاشرے کے ساتھ تعلق ختم ہو جائے گا۔ وہ یہ ملک تو چھوڑ چکے ہیں اس کے باوجود ترسیلات زر بھیجتے ہیں۔‘
’پاکستان کے بارے میں سوچتے ہیں۔ میری ریسرچ ہے کہ بیرون ملک جانے والی پہلی نسل اپنے ملک کے بارے میں پریشان ہوتی ہے، دوسری نسل میں اپنے ملک سے متعلق سوچ کم ہو جاتی ہے تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ تیسری نسل اپنی جڑوں کی طرف واپس آتی ہے اور اپنی شناخت بنانے کی کوشش کرتی ہے۔‘
الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انٹرنیٹ ووٹنگ کو غیر محفوظ اور عام ووٹرز کے لیے مشکل قرار دیتے ہوئے ڈیٹا ہیکنگ کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
اس پائلٹ منصوبے پر نو کروڑ 50 لاکھ خرچ ہوئے اور اگر پورے ملک کے تمام حلقوں کے لیے انتظامات کرنا پڑے تو قیمت 15 کروڑ سے تجاوز کر سکتی ہے۔
حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان میں انٹرنیٹ ووٹنگ پر اجلاس بلایا گیا۔ اجلاس میں سیکرٹری وزارت انفارمیشن  ٹیکنالوجی، وزارت کے دیگر سینئیر افسران اور سپنیش(Spanish)  کنسلٹسنی فرم کے نمائندوں نے نادرا کے تیار کردہ انٹرنیٹ ووٹنگ سسٹم کی ٹیکنیکل آڈٹ رپورٹ پر بریفنگ دی۔

الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انٹرنیٹ ووٹنگ کو غیر محفوظ اور عام ووٹرز کے لیے مشکل قرار دیا ہے۔ (فوٹو: پی آئی ڈی)

جس میں نادرا کے بنائے ہوئے سسٹم کا میکسیکو، فرانس اور ایسٹونیا کے بنائے ہوئے سسٹم سے موازانہ کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کو بتایا گیا کہ فرانس نے انٹرنیٹ ووٹنگ سسٹم کا استعمال اب روک دیا ہے جبکہ میکسیکو اور ایسٹونیا اپنے سسٹم پر بتدریج تجربات کر رہے ہیں۔
کنسلٹنٹ فرم نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ نادرا کا بنایا ہوا آئی ووٹنگ سسٹم عالمی معیار کا نہیں ہے جس کو جدید ٹیکنالوجی کے مطابق بنانےکی سفارشات دی گئی ہیں۔
اس صورت حال میں سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا حکومت اور الیکشن کمیشن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
ڈاکٹر محمد زمان کہتے ہیں کہ ’اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حصہ کیسے بنایا جائے۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ ووٹنگ ایک بڑا اہم موقع ہے کہ وہ وہاں بیٹھ کر اپنے حلقے میں اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دے دیں۔‘
’دو کروڑ ووٹ ہیں جب وہ ووٹ پڑیں گے تو بڑا فرق پڑے گا۔ تاہم ان ووٹوں کا تحفظ بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ موقع موجود ہے لیکن اس کے ساتھ خطرہ بھی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’امریکی انتخابات میں ڈیٹا سکیورٹی پر سوال اٹھ سکتے ہیں تو پمارے ہاں بھی سیکیورٹی کمپرومائز ہو سکتی ہے۔ اگر ووٹ کی سکیورٹی نہیں ہوگی تو سول وار لگ سکتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ انٹرنیٹ ووٹنگ کا بارہا ٹرائل کیا جائے۔ ضمنی انتخابات میں ٹرائل ہوگیا، اب بلدیاتی انتخابات میں اس کا تجربہ کریں۔ قومی انتخابات میں ووٹنگ کرائیں لیکن سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ابتدائی مرحلے میں ان ووٹوں کو حتمی گنتی کا حصہ نہ بنائیں۔‘

الیکشن کمیشن کو بتایا گیا کہ فرانس نے انٹرنیٹ ووٹنگ سسٹم کا استعمال اب روک دیا ہے. (فوٹو: ٹوئٹر)

ڈاکٹر محمد زمان نے اس بات پر زور دیا کہ ’ورچوئل دنیا اب ایک حقیقی دنیا بن چکی ہے۔ اس لیے ڈیٹا سکیورٹی ہر صورت یقینی بنانا ہوگی۔ جب آپ اپنے ووٹنگ سسٹم کی ڈیٹا سیکیورٹی کو یقینی بنا لیں گے تو سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے ملک کا ہی فائدہ ہوگا۔ تاہم موجودہ سسٹم کے ساتھ مجھے نہیں لگتا کہ الیکشن کمیشن یا حکومت اس کے لیے تیار ہیں۔‘
ڈین پولیٹکل سائنس ڈیپارٹمنٹ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر آمنہ محمود بھی سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی حامی ہیں۔ اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’دنیا کے کئی ممالک اپنے سفارت خانوں میں الیکشن ڈے پر پولنگ سٹیشن قائم کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ ووٹنگ کا فائدہ یہ ہے کہ اگر کوئی ٹیکنالوجی سے واقف ہے تو وہ خود استعمال کرے اور اس کے بارے میں کم جانتا ہے یا نہیں جانتا تو سفارت خانوں میں ایسا انتطام کیا جائے گا کہ ووٹر ووٹ بھی کاسٹ کریں اور اس کی سکیورٹی اور سیکریسی دونوں پر حرف بھی نہ آئے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’صدارتی انتخابات اور حلقہ جاتی انتخابات کا جب موازنہ کیا جاتا ہے تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں اتنی جدت آ چکی ہے کہ ہے جب ایک ووٹر کو مخصوص کوڈ دیا جائے گا تو اس کے سامنے صرف اس کے اپنے حلقے کے امیدواروں پر مشتمل بیلٹ پیپر ہی آئے گا۔ ایسا ممکن نہیں ہو سکے گا ایک ووٹر کسی دوسرے حلقے میں جا کر ووٹ کر دے۔ اس لیے کم از کم یہ موازنہ درست نہیں ہے۔‘

شیئر: