Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلسطینیوں کا انتباہ: نئی اسرائیلی حکومت ’پہلی سے مختلف نہیں ہوگی'

اُسامہ حامدی نے نیتن یاہو کے اقتدار کے ختم ہونے کو 'بڑی کامیابی' قرار دیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
فلسطین کی سیاسی شخصیات نے خبردار کیا ہے کہ بینجامن نیتن یاہو کی وزارت اعظمیٰ ختم ہونے کے بعد فلسطین کو اسرائیل کی پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کی توقع نہیں رکھنی چاہیے خاص طور پر جو غزہ سے متعلق ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق نفتالی بینیٹ کی سربراہی میں بننے والی اسرائیلی حکومت پر اب بھی اختلاف رائے ہے۔
فلسطینی حلقوں کا ماننا ہے کہ اسرائیل کی نئی حکومت پہلے کی حکومتوں سے مختلف نہیں ہوگی۔
تاہم 33 سالہ اُسامہ حامدی نے نیتن یاہو کے اقتدار کے ختم ہونے کو 'بڑی کامیابی' قرار دیا۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ 'کوئی بھی اسرائیلی ہمارے حق میں کچھ نہیں کررہا (لیکن) کسی بھی ظالم شخص کے زوال کو مثبت سمجھنا چاہیے، چاہے اس کے بعد کوئی بھی اقتدار میں آئے۔'
اُسامہ حامدی نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’نئی حکومت کی اسرائیل کی اسمبلی اور معاشرے میں مضبوط بنیاد نہیں ہے۔‘
اسرائیل کی پارلیمنٹ نے اتوار کو نفتالی بینیٹ کی اتحادی حکومت کی منظوری دی ہے، جس سے بینجامن نیتن یاہو کا 12 سالہ اقتدار ختم ہوگیا ہے۔
اسرائیل کے سب سے طویل عرصے تک رہنے والے وزیراعظم اب حزب اختلاف کے رہنما ہوں گے۔
نئی اتحادی حکومت میں تحت نفتالی بینیٹ حکومت کے پہلے دو سالوں کے لیے اقتدار میں ہوں گے اور پھر وزیر خارجہ یائر لیپید، جنہوں نے اتحادی حکومت بنائی ہیں، وزیر اعظم بنیں گے۔
نئی حکومت کے حوالے سے محمد سلطان کا کہنا ہے کہ بینجامن نیتن یاہو فلسطینیوں کے لیے حل تک پہنچ سکتے ہیں لیکن یہ نئی کمزور حکومت اسرائیل اور غزہ کے تعلقات کے معاملے میں کچھ نہیں کر سکتی۔
'تاریخ میں اسرائیل کے کامیاب رہنماوں، جیسا کہ رابن، شیرن اور نیتن یاہو نے بڑے اقدامات لیے ہیں، چاہے وہ جنگ کے لیے ہوں یا امن سے متعلق ہوں۔ اب یہ حکومت (ایسی) ہے جس میں کوئی اصل رہنما نہیں ہے، تو اس کے ساتھ کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔'

اسرائیل کی پارلیمنٹ نے اتوار کو نفتالی بینیٹ کی اتحادی حکومت کی منظوری دی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سنہ 2007 میں حماس کے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر ناکہ بندی کردی ہے۔
اس پٹی پر تب سے اب تک چار جنگیں اور متعدد جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد حماس کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کے معاملے میں کوئی امید نہیں ہے، خاص طور پر یروشلم میں ہونے والی موجوہ کشیدگی کی روشنی میں جس کی وجہ سے گذشتہ ماہ دونوں اطرف کی افواج میں جھڑپ ہوئی تھی۔
حماس کے ایک افسر سامی ابو زھری نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ، 'ہم قابض حکومتں سے کسی رد و بدل کی امید نہیں کر رہے۔'
ان کا مزید کہنا تھا 'وہ ہلاک کرنے اور فلسطینیوں کے حقیق چھیننے کی پالیسی پر متحد ہیں، لیکن نیتن یاہو کا زوال کامیاب مزاحمت کا نتیجہ ہے۔'
اسلامک جہاد کے ترجمان طارق سالمی کا ایک بریس بیان میں کہنا تھا کہ 'یہ قبضہ سیکورٹی اور فوجی نظام کے تحت کیا گیا ہے، جو کہ دہشتگردی اور جارحیت نہیں ختم کررہا۔ اسی لیے ہمیں اپنے لوگوں کا دفاع کرنے ہمیشہ تیار رہنا ہوگا۔'

شیئر: