Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا میں خدمات کا اعتراف، پاکستانی ڈاکٹر کے لیے امارات کا گولڈن ویزہ

ڈاکٹر سراج کا کہنا تھا کہ ’گولڈن ویزہ کا ملنا میرے اور میرے خاندان کے لیے اعزاز کی بات ہے‘ (فوٹو: سمعیہ اختر فیس بک پیج)
سندھ کے علاقے ماتلی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سراج احمد کھتری کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے کورونا وبا کے دوران میڈیکل کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دینے کے اعزاز میں ’گولڈن ویزہ‘ کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے وزیرِاعظم شیخ محمد بن راشد آل مکتوم کی جانب سے دبئی ہیلتھ اتھارٹی سے منسلک میڈیکل پروفیشنلز بشمول ڈاکٹروں کے لیے کورونا وبا کے دوران ان کی خدمات کے پیشِ نظر ان افراد کے لیے 10 سال کی مدت کا گولڈن ویزہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ اعزازی طور پر دییے جانے والے اس ویزہ کی پروسیسنگ فیس بھی معاف کی گئی ہے۔
ڈاکٹر سراج احمد کی اہلیہ سمعیہ اختر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سراج احمد کا تعلق ماتلی سے ہے اور انہوں نے میڈیکل کی تعلیم حیدرآباد سے حاصل کی جبکہ ہاؤس جاب کراچی سے کی۔ اس کے بعد وہ چند سال قبل بہتر مستقبل کے لیے متحدہ عرب امارات منتقل ہوگئے تھے۔‘
متحدہ عرب امارات کی جانب سے گولڈن ویزہ دیے جانے کا اعلان 2019 میں کیا گیا تھا، اس سپیشل سکیم کے تحت ڈاکٹر، سائنس دان، محققین، سرمایہ کار اور کاروباری افراد کو 10 سال کے لیے گولڈن ویزا دیا جا سکتا ہے۔
گولڈن ویزہ کے حامل افراد بغیر کسی سپانسر کے نہ صرف نوکری اور پڑھائی کر سکتے ہیں بلکہ اپنا کاروبار بھی شروع کر سکتے ہیں اور اس کی مکمل اونرشپ اپنے پاس رکھ سکتے۔
گولڈن ویزہ کا اعزاز کرنے پر ڈاکٹر سراج احمد نے متحدہ عرب امارات کی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ کورونا وائرس کے دوران اپنی خدمات کو سراہے جانے پر حکومت کے مشکور ہیں۔‘

ڈاکٹر سراج کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ ’ان کے شوہر امارات میں بھی ضرورت مند ہم وطنوں کا ہی علاج کرتے ہیں‘ (فوٹو: سمعیہ اختر فیس بک پیج)

ان کا کہنا تھا کہ ’گولڈن ویزہ کا ملنا میرے اور میرے خاندان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔‘
سمعیہ اختر نے بدھ کو سوشل میڈیا کے کچھ گروپس میں اس حوالے سے پوسٹس کیں جس میں انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان کی فیملی کو اماراتی حکومت کی جانب سے گولڈن ویزہ کا اعزاز موصول ہوگیا ہے۔‘
سمعیہ کا کہنا تھا کہ ’ان کے شوہر بہتر ملازمت کی تلاش میں متحدہ عرب امارات آئے تھے اور یہاں بھی وہ غریب اور ضرورت مند ہم وطنوں کا ہی علاج کرتے ہیں۔‘

شیئر: