Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

احمدی نژاد سمیت بہت سے ووٹروں نے ایران کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا

تہران کی سڑکوں پر بہت ہی مختلف مناظردیکھنے میں آئے ہیں(فوٹو اے ایف پی)
ایران کے سرکاری ٹی وی نے جمعے کو لوگوں کو ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ نیوز اینکرز نے ووٹروں کی تعریف کی ہے لیکن تہران کی سڑکوں پر بہت ہی مختلف مناظردیکھنے میں آئے ہیں جہاں بہت سے پولنگ سٹیشن کافی حد تک خالی دکھائی دیتے ہیں۔
ایسوسی ایٹ پریس کے مطابق ’ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے سخت گیر ابراہیم رئیسی کی حمایت کے باعث غصے اور سرد مہری کے دوران انتخابی ماحول واضح طور پر رک سا گیا‘۔
 ’یہ لاحاصل ہے‘ جنوبی تہران کے 36 سالہ ایک بے روزگار شہری علی الحسینی نے پولنگ کے حوالے سے کہا۔
’جو بھی شخص الیکشن جیتتا ہے کچھ عرصے بعد کہتا ہے کہ بااثر لوگوں کی مداخلت کی وجہ سے معیشت کا مسئلہ حل نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد وہ اپنے وعدے بھول جاتا ہے اور ہم غریب عوام پھر مایوس ہو جاتے ہیں‘۔
تہران کے سولہ مختلف پولنگ سٹیشنوں پرعینی شاہدین نے ووٹروں کی قطاروں کو مختصر بتایا۔ ایک وقت میں آٹھ سے زیادہ ووٹر ووٹ ڈالتے نہیں دیکھے جا سکتے تھے۔ کچھ پولنگ سٹیشن عملی طور پر دن بھر ویران رہے۔ پولنگ ورکر سرکاری ریڈیو سنتے، اپنے فون دیکھتے یا پرسکون انداز میں چیٹ کرتے رہے۔
 یورپ میں مقیم حزب اختلاف کی جماعت نیشنل کو نسل آف ریزسٹینس آف ایران کے ترجمان فرید نے کہا کہ 31 صوبو ں کے 220 شہروں میں پولنگ سٹیشنوں سے موصولہ رپورٹس، تصاویر اور وڈیوکلپس کے مطابق ’جعلی‘  الیکشن کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ کیا گیا۔
تہران کے کئی علاقوں جیسا کہ قمر بنی ہاشم مسجد، ارمغان عالم اور تہران کے دوسرے اضلاع کے پولنگ سٹیشن جن میں 64 پولنگ سٹیشن شامل ہیں کے پولنگ سٹاف کی رپورٹس کے مطابق ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔
وسطی تہران کی31 سالہ اکاونٹنٹ نسرین کا کہنا ہے کہ ’کوئی بھی امیدوار قابل اعماد نہیں ہے‘۔

سخت گیر ابراہیم رئیسی کو ایران کے سپریم لیڈر کی حمایت حاصل ہے(فوٹو اے ایف پی)

ایک متوسط طبقے کے 23 سالہ روزین احمدی نے کہا کہ ’ان میں سے کسی نے بھی منصوبہ پیش کرنے کی ہمت نہیں کی کہ وہ ملک کو کیسے معمول پر لائیں گے‘۔
احمدی کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے ووٹ نہیں ڈالا‘۔
سابق سخت گیر صدر محمود احمدی نژاد نے بھی غصے کا اظہار کرتے ہوئے گھر میں رہنے اور ووٹ نہ دینے کے فیصلے کو دہرایا۔ انہو ں نے متنبہ کیا کہ ’انتہائی پابندی والے عمل سے ایسی حکومت آئے گی جو داخلی اور بیرونی قانونی جواز سے محروم ہوگی‘۔
انہوں نے ڈیلی ٹیلی گراف کو بتایا کہ’ میں ووٹ نہیں ڈال رہا اور اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ لوگوں کے ایک بڑے حصے کو ایک طرف کر دیا گیا ہے‘۔
’ایک کمزور حکومت بر سر اقتدار آرہی ہے اور کمزور حکومت ایران کی صورتحال کو کمزور کر دے گی۔ یہ داخلی صورتحال اور دنیا کے ساتھ ہمارے تعلقات کو بھی کمزور کرے گی‘۔ 
عرب نیوز کے مطابق پہلے سے طے شدہ اس انتخاب میں اس بات کا امکان ہے کہ صدارت ایک جج کو سونپی جائے گی جس پر مبینہ طور پر سیاسی قیدیوں کی پھانسیوں میں ملوث ہونے پر واشنگٹن کی جانب سے پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
سخت گیر ابراہیم رئیسی کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی حمایت حاصل ہے اور وہ حقیقت پسند صدر حسن روحانی کے بعد صدارت کے لیے پسندیدہ امیدوار ہیں۔
 

شیئر: