Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان صدر اور وزیراعظم کے دائرہ اختیار سے باہر ہے: گزین مری

بلوچستان کے قوم پرست رہنما نوابزادہ گزین مری کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان کی ذاتی خواہشات اپنی جگہ لیکن بلوچستان میں مفاہمت کی پالیسی طاقتور قوتوں کی مرضی کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔
کوئٹہ میں اپنی رہائش گاہ پر اردو نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں گزین مری کا کہنا تھا کہ ’تمام مسائل کا حل مذاکرات کی میز پر ممکن ہے مگر بلوچ مسلح تنظیموں اور ریاست پاکستان دونوں کو اپنے سخت مؤقف سے کچھ قدم پیچھے ہٹنا ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں غریب، مزدور اور نوکری پیشہ افراد کا قتل تخریب کاری اور دہشت گردی ہے۔
گزین مری بلوچ سنہ 1993 میں بلوچستان کے وزیر داخلہ رہے۔ سنہ 2000 میں وہ خود ساختہ جلا وطن ہوئے اور 17 سال بعد ستمبر2017 میں پاکستان واپس آئے۔
بیرون ملک موجود ان کے دو بھائی حیربیار مری اور مہران مری کے بارے میں پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ کالعدم بلوچ مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی کی سربراہی کر رہے ہیں تاہم طویل عرصہ تک دبئی میں مقیم گزین مری غیرجانبدار رہے۔
گزین مری بیرون ملک موجود ’ناراض‘ بلوچ رہنماؤں میں واحد شخصیت ہے جو وطن واپس آئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کے عندیے سے متعلق سوال پر گزین مری کا کہنا تھا کہ ’بات چیت یقیناً کافی پہلے ہونی چاہیے تھی مجھے پتا نہیں کہ عمران خان اس معاملے میں کتنے سنجیدہ ہیں لیکن اس سے پہلے بھی کئی صدور اور وزرائے اعظم ایسی خواہشات کا اظہار کر چکے ہیں مگر کچھ نہیں کر سکے، شاید کہیں سے رکاوٹیں تھیں۔‘

گزین مری کا کہنا تھا کہ میری وطن واپسی سے کئی لوگوں کے مفادات کو زچ پہنچ رہی تھی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

گزین مری کے مطابق ’آپ جو بھی نام دیں اصل طاقت جن کے ہاتھ میں ہے ان کی طرف سے اگر کوئی ان کو گرین لائٹ ملی ہو یا اختیارات ملے ہوں پھر تو شاید کچھ ہو۔ ان کی اپنی خواہش ہے تو خواہش تو اچھی ہے مگر مجھے نہیں لگتا کہ کسی حد (نتیجے) تک پہنچیں کیونکہ بلوچستان، کوئی اچھا سمجھے یا برا، صدر اور وزیراعظم کے ڈومین سے بھی باہر ہے۔ جن کے ڈومین میں ہیں سب کو پتہ ہیں لیکن بول نہیں سکتے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور میں مذاکرات کی کوششیں کیوں کامیاب نہیں ہو سکیں؟ اس سوال کے جواب میں گزین مری کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالمالک کے پاس اختیارات کتنے تھے؟ وہ تو ایک پیغام رساں کی حیثیت سے گئے اور کوئی وعدہ نہیں کر سکتے تھے اور اگر کوئی کمٹمنٹ کر بھی لیتے تو اس کو پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔
وطن واپسی کے باوجود سیاسی عمل کا حصہ بننے میں ناکامی سے متعلق سوال پر گزین مری کا کہنا تھا کہ میری وطن واپسی سے کئی لوگوں کے مفادات کو زک پہنچ رہی تھی کیونکہ ان کی اپنی اجارہ داری تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عوام کو مرضی کے لوگوں کا انتخاب کرنے دیا جائے۔ یقیناً جو منتخب ہو کر آئیں گے وہ چاہے وزیراعظم ہوں یا صدر پاکستان، ملک کے آئین کے فریم ورک سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے۔

گزین مری کا کہنا تھا کہ ان کو نہیں معلوم کہ عمران خان ناراض بلوچوں سے بات چیت کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

گزین مری کا کہنا تھا کہ ’میں نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ مشکل وقت میں بیرون ملک بیٹھ کر آرام و آسائش سے رہوں اور پھر جب اقتدار اور کرسی کا وقت آئے تو آ کر اس کے مزے لوں۔ میں اپنے لوگوں کے دکھ درد اور غم میں شریک ہونا چاہتا تھا اس لیے واپس آیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں کوئی سمجھوتہ کر کے وطن واپس نہیں آیا اگر کسی سمجھوتے کے تحت آتا تو یقیناً پھر جیل میں نہیں رکھا جاتا اور مقدمات بھی واپس لیے جاتے۔‘ 
گزین مری کے بقول ’بیرون ملک موجود افراد کی وطن واپسی میں سب سے بڑی رکاوٹ اعتماد کا فقدان ہے۔ ہر کوئی ماضی کو دیکھ کر کوئی قدم اٹھائے گا یا فیصلہ کرے گا۔ ماضی کے کچھ تلخ حقائق ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’قرآن شریف کا واسطہ دے کر نواب نوروز خان کو پہاڑوں سے اتارا گیا مگر اس کے بعد اس غلطی کا کوئی مداوا نہیں کیا گیا۔ معافی مانگنے کی بجائے غلطیاں دوہرائی جا رہی ہیں۔ مہذب معاشرے میں اگر کسی کے بزرگوں نے بھی کوئی جرم کیا ہو یا غلطی کی ہو تو پوتے آ کر غلطی معافی مانگتے ہیں۔‘
انڈیا کی جانب سے بلوچ عسکریت پسندوں کو استعمال کرنے سے متعلق وزیراعظم کے بیان پر ان کا کہنا تھا کہ ’یقیناً آپ کا دشمن آپ کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھائے گا۔ انڈیا، پاکستان کی اندرونی خامیوں کا فائدہ اٹھائے گا تو پاکستان بھی ہمسایہ حریف ملک کی خامیوں کو اپنے حق میں استعمال کرے گا۔‘ 

گزین مری کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کوئی وعدہ پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

گزین مری سے پوچھا گیا کہ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ بلوچ عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں۔ کیا بدلتی ہوئی صورتحال کے باعث افغانستان میں موجود بلوچ عسکریت پسندوں کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’اگر وہاں بلوچ ہیں تو امریکی انخلا کے بعد ہم قیاس آرائیاں ہی کر سکتے ہیں کہ کیا ہوگا۔ یقیناً ان کے لیے کچھ مشکلات پیدا ہوں گی۔‘
’اگر اس سے پہلے وہاں ان کو مدد مل رہی تھی کوئی لاجسٹک کی صورت میں یا کسی اور طریقے سے تو ان پر یقیناً کافی اثر پڑے گا۔ میرے پاس ایسی کوئی فرسٹ ہینڈ رپورٹ نہیں ہے۔ میں میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر ہی کہہ رہا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کا مسئلہ اگر حل کرنا چاہے تو میرے خیال میں یہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ بلوچستان کی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا کچھ فیصد بنتی ہے ان کے مسائل ایسے نہیں جو حل نہیں ہو سکتے۔‘
’پتہ نہیں جو تھنک ٹینک ہیں اور جو یہاں کے بااختیار لوگ ہیں وہ کیوں نہیں کر رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کا مسئلہ حل کرنا اگر نیک نیتی ہو تو بہت آسان ہے۔‘
بلوچ مسلح تنظیموں کے ہاتھوں دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کے قتل سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی انسان اس بات کو درست نہیں سمجھے گا۔ یہ بالکل غلط ہوا چاہے وہ مزدور پنجابی ہو، پشتون ہو، سندھی ہو یا کسی بھی قوم اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو، غریب عوام کو مارنا تخریب کاری ہے۔
گزین بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ ’آج پنجاب چلے جائیں شاید ہم سے زیادہ وہاں غربت ہے، آبادی زیادہ ہے اگر وہاں پر ان کی ضروریات پوری ہوتیں تو وہ کبھی بھی اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں نہ آتے۔ وہ اپنے بچوں کو پالنے کے لیے آتے ہیں، دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے آتے ہیں یہ بالکل غلط ہے، یہ دہشت گردی ہے، اس کا آپ کسی طرح سے جواز نہیں دے سکتے۔ آپ سے اگر طاقتور لڑ رہا ہے آپ ان سے جا کر لڑیں یہ تو خود غریب ہیں جن کے پاس کچھ نہیں۔‘

شیئر: