Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نسلی تعصب کا مظاہرہ کیا تو فٹ بال سٹیڈیم میں داخلے پر پابندی ہوگی‘

انگلینڈ میں فٹ بال کے سیاہ فام کھلاڑیوں کو نسلی تعصب کا سامنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ ’انگلینڈ میں گینگسٹرز کے فٹ بال میچز دیکھنے پر پابندی کو ان لوگوں تک بڑھایا جا رہا ہے جو سوشل میڈیا پر فٹ بال کے کھلاڑیوں کو نسلی تعصب کا نشانہ بنا رہے ہیں۔‘
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف کے مطابق اتوار کو یورو 2020 کے فائنل میں اٹلی کے ہاتھوں شکست کے بعد انگلینڈ کے سیاہ فام کھلاڑیوں کو نسلی تعصب کا سامنا ہے۔
بورس جانسن نے بدھ کو اپنے ممبران پارلیمنٹ سے کہا کہ ’ہم فٹ بال دیکھنے پر پابندی کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدام کر رہے ہیں۔ اگر کسی نے آن لائن نسلی تعصب سے کام لیا تو وہ میچ نہیں دیکھ سکیں گے۔‘
ملک میں اور بیرون ملک فٹ بال میچوں میں مشکلات کھڑی کرنے والے انگلش گینگسٹرز کے خلاف 1989 میں پابندی کا حکم دیا گیا تھا۔
جونیئر وزیر داخلہ وکٹوریا ایٹکنز نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم فٹ بال کلبز اور دیگر کے ساتھ مل کر اس پابندی کو یقینی بنائیں گے۔‘
مانچسٹر پولیس نے کہا ہے کہ ’انگلینڈ کے کھلاڑیوں کے خلاف سوشل میڈیا پوسٹ شائع کرنے والے ایک 37 سالہ شخص کو  گرفتار کیا گیا ہے۔‘
جرم ثابت ہونے پر اسے زیادہ سے زیادہ دو سال قید اور غیر محدود جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
برطانوی حکومت پر اس معاملے پر ایکشن لینے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ پیر کو ایک آن لائن پٹیشن پر 10 لاکھ سے زائد لوگوں نے دستخط کیے اور نسلی تعصب کا نشانہ بنانے والے افراد کے میچ دیکھنے پر تاحیات پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔
تاہم بورس جانسن اور ان کے وزیروں پر تنقید کی جا رہی ہے کہ انہوں انگلینڈ کے ان شائقین فٹ بال کی فوری مذمت نہیں کی جنہوں نے اپنی ہی ٹیم کو نشانہ بنایا۔

بورس جانسن نے کہا کہ ’انہوں فیس بک، ٹوئٹر، ٹک ٹاک، سنیپ چیٹ اور انسٹاگرام سے ابتدائی بات چیت کی ہے۔‘ (فوٹو ٹائمز آف مالٹا)

بورس جانسن نے منگل کو اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے دنیا کے سرکردہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے نمائندوں سے ملاقات کی۔
’جب تک وہ اپنے پلیٹ فارمز سے نفرت اور نسلی تعصب کو ختم نہیں کرتے انہیں ان کی عالمی سطح پر ہونے والی آمدن کا 10 فیصد جرمانے کے طور پر دینا پڑے گا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس پر قابو پانے کے لیے ان کے پاس ٹیکنالوجی ہے۔‘
بورس جانسن نے کہا کہ ’انہوں فیس بک، ٹوئٹر، ٹک ٹاک، سنیپ چیٹ اور انسٹاگرام سے ابتدائی بات چیت کی ہے۔‘
تاہم اہوزیشن کے سیاست دانوں نے کہا ہے کہ نسلی تعصب کے حوالے سے سابقہ زندگی میں اخباری  کالم نویس ہوتے ہوئے بورس جانسن کا اپنا ریکارڈ ٹھیک نہیں ہے۔

شیئر: