Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم قتل کیس: ’کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں‘، والد کا بیان

مقتولہ کے والد سابق سفیر شوکت علی مقدم کے مطابق وہ اس کیس میں کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں (فوٹو: اردو نیوز)
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کے جسمانی ریمانڈ میں دو روز کی توسیع کرتے ہوئے پیر کو پھر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ 
دوسری جانب مقتولہ کے والد سابق سفیر شوکت علی مقدم نے واضح کیا ہے کہ وہ اس کیس میں کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ملزم کو سزا دلوانا ہی ان کا واحد مقصد ہے۔ 
تین روزہ جسمانی ریمانڈ ختم ہونے کے بعد پولیس کی جانب سے ملزم ظاہر جعفر کو ڈیوٹی میجسٹریٹ صہیب بلال رانجھا کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ 
اس موقع مقتولہ کے والد بھی اپنے چند قریبی رشتہ داروں کے ہمراہ موجود تھے۔ مقتولہ کی نمائندگی ایڈووکیٹ شاہ خاور نے کی جبکہ سرکاری وکیل ساجد چیمہ پولیس کی جانب سے پیش ہوئے۔ 
سرکاری وکیل نے تفتیش میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں عدالت کو بتایا کہ ’ملزم سے آلہ قتل چاقو، نائن ایم ایم پستول اور ایک آہنی مکا برآمد کیا گیا ہے۔ ملزم کے استعمال کیے گئے سگریٹ اور مقتولہ کے کپڑے بھی قبضے میں لیے گئے۔
مقتولہ کا پوسٹ مارٹم کروا کے رپورٹ حاصل کر لی گئی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ملزم سے اس کے فون، مقتولہ کا فون اور کچھ دیگر چیزیں برآمد کرنا باقی ہیں۔ جس سے ان کے باہمی روابط اور دوران واردات اگر کسی سے رابطہ رہا ہے تو اس بارے میں معلومات مل سکتی ہیں۔ اس لیے عدالت زیادہ سے زیادہ ریمانڈ دے تاکہ مزید تفتیش کی جا سکے۔‘ 
مقتولہ کے وکیل شاہ خاور نے بھی سرکاری وکیل کے موقف کی حمایت کی اور کہا کہ ’قانون 14 دن کے ریمانڈ کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے کم از کم 14 دن کا ریمانڈ دیا جائے۔‘
ملزم کے وکیل نے مزید ریمانڈ دینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’آلہ قتل برآمد ہو چکا ہے، اس لیے مزید تفتیش کی ضرورت نہیں ہے، ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جائے۔‘ تاہم عدالت نے استدعا مسترد کرتے ہوئے ملزم کے ریمانڈ میں دو دن کی توسیع دیتے ہوئے پیر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ 

مقتولہ کے والد سابق سفیر شوکت علی مقدم چند رشتہ داروں کے ہمراہ عدالت پہنچے تھے (فوٹو: اردو نیوز)

جب ملزم کو پیش کیا گیا تو اس کے بعد مقتولہ کے والد اور سابق سفیر شوکت علی مقدم بھی پہنچ گئے۔ چھوٹے سے کمرہ عدالت میں وکلا کے علاوہ چند افراد کے کھڑا ہونے کی جگہ تھی۔ جب مقتولہ کے والد کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو دروزے پر موجود صحافیوں اور وکلا نے انھیں اندر داخل ہونے کے لیے راستہ دیا۔ جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے وہ کمرہ عدالت میں ملزم کے بالکل قریب کھڑے رہے۔ 
اس دوران ان کے ہمراہ ایک قریبی رشتہ نوجوان بھی موجود تھا جس نے انھیں مسلسل تھامے رکھا۔ مقتولہ کے والد کے چہرے پر غصے اور غمزدگی کے آثار نمایاں تھے۔
سماعت کے فوراً بعد کمرہ عدالت کے باہر اردو نیوز نے شوکت مقدم سے بات کی تو انھوں نے پولیس کی جانب سے اب تک کی گئی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ پولیس کسی دباؤ میں نہیں آئے گی۔ 
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’ابھی تک ملزم کے خاندان کی جانب سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، میں خود بھی ابھی اس ذہنی کیفیت میں نہیں ہوں کہ اس معاملے پر کوئی بات کر سکوں۔ البتہ ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے اس معاملے میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘ 

عدالت نے ملزم کو پیر کے روز پھر پیش کرنے کا حکم دیا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

انھوں نے چلتے ہوئے کہا کہ ’میری بیٹی کو نا حق قتل کیا گیا اور ظلم کیا گیا۔ اس میں معافی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ ہم طے کر چکے ہیں کہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔‘
عدالت سے واپسی پر ملزم نے میڈیا سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں کہا کہ ’میں امریکی شہری ہوں اور میں وکیل سے ملنے کا کہتا رہا ہوں لیکن ابھی تک مجھے باہر سے کسی فرد سے ملنے نہیں دیا گیا۔‘ 
20 جولائی کی شام اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف سیون میں سابق سفیر کی 28 سالہ نور مقدم کو گلا کاٹ کر قتل کر دیا گیا تھا۔ جس کا مقدمہ تھانہ کوہسار میں درج کیا گیا ہے۔ 

شیئر: