Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہم طالبان کے ترجمان نہیں، افغانستان میں امن چاہتے ہیں: عمران خان

عمران خان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی اقتصادی صورتحال مزید افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔‘ (فوٹو: اے پی پی)
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ ’میرا ہمیشہ سے یہی ماننا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے۔‘
اسلام آباد میں بدھ کو پاک افغان یوتھ فورم کے وفد سے گفتگو میں جس میں افغان میڈیا کے نمائندگان بھی شامل تھے، وزیراعظم نے کہا کہ پاکستانی فوج میرے اقدامات کی حمایت کر رہی ہے۔
افغان میڈیا کے نمائندگان کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ساری دنیا سے بڑھ کر پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے۔اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان خانہ جنگی جاری رہتی ہے تو اس کے اثرات پاکستان کے قبائلی علاقوں پر پڑیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کی اقتصادی صورتحال مزید افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔‘
افغان طالبان کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ ’طالبان کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں، اس سے ہمارا کیا تعلق ہے۔ ہم طالبان کے ترجمان نہیں ہیں۔‘
افغانستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’لیکن آپ کے پاس دو راستے ہیں ۔ 20 سال سے فوجی حل کے ذریعے افغانستان میں امن لانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ ناکام ہو گیا۔ اب آپ پر منحصر ہے یا تو امریکی حمایت کے ساتھ فوجی حل کی تلاش جاری رکھیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ طالبان کو حکومت کا حصہ نہیں ہونا چاہیے لیکن سب کو پتا ہے یہ ناممکن ہے۔‘
وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ ’دوسرا حل یہ ہے کہ طالبان اور افغان حکومت مل کر ایک مشترکہ حکومت بنائے یہی واحد حل ہے۔ طالبان جو کرتے ہیں اس سے سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہم بس چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن ہو۔‘
’افغانستان کا امن پاکستان کے مفاد میں ہے۔ پاکستان میں 30 لاکھ افغان مہاجرین مقیم ہیں۔ وہ تقریباً تمام پشتون ہیں اور ان کی اکثریت طالبان کی ہمدرد ہیں۔‘

عمران خان کا کہنا ہے کہ ’صدر اشرف غنی چاہتے تھے کہ ہم سرحد پار سے نقل وحرکت کو روکنے کی کوشش کریں۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ڈیورنڈ لائن خیالی سرحد تھی

ایک سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ کیسے چیک کر سکتے ہیں کہ کون افغانستان میں لڑنے جا رہا ہے جبکہ 25 سے 30 ہزار لوگ روزانہ افغانستان جاتے ہیں اور پھر واپس آتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کا مستقل اصرار رہا تھا کہ اگر تمام افغان مہاجرین اپنے ملک واپس چلے جائیں تو تب آپ ہمیں ذمہ دار ٹھہرا سکتے تھے لیکن جب 30 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ چند سو لوگ افغانستان میں جنگ کے لیے گئے تو پھر ان کی لاشیں واپس لائی گئیں۔‘
’پاکستان کو کیسے مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ مہاجرین کے بعض کیمپوں میں پانچ لاکھ افراد مقیم ہیں اور بعض میں ایک لاکھ افراد، پاکستان کیسے مہاجرین کے کیمپ میں جا کر پتہ کر سکتا ہے کہ کون طالبان کے حامی ہیں اور کون نہیں اس لیے یہ ممکن نہیں۔‘
عمران خان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں تک افغانستان اور پاکستان کے درمیان برائے نام سرحد تھی۔ ڈیورنڈ لائن کو خیالی سرحد خیال کیا جاتا تھا، سرحد پارآنے جانے والوں کو کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان نے سرحد پر باڑ لگائی جس پر بہت خرچہ آیا ہے۔‘
’تقریباً 90 فی صد سرحد پر باڑ لگ چکی ہے۔ یہ باڑ پہلی دفعہ لگائی گئی ہے۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ سرحد پر نقل و حرکت کو کنٹرول کیا جائے۔‘

وزیراعظم عمران خان نے بدھ کو اسلام آباد میں پاک افغان یوتھ فورم کے وفد سے ملاقات کی۔ (فوٹو: اے پی پی)

ہمارا اب کوئی پسندیدہ نہیں

افغان صدر اشرف غنی سے چند دن قبل ازبکستان میں ہونے  والی ملاقات سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’جو کچھ میں آپ کو بتا رہا ہوں یہی کچھ میں نے صدر اشرف غنی کو بتایا تھا۔‘
’صدر اشرف غنی چاہتے تھے کہ ہم سرحد پار سے نقل وحرکت کو روکنے کی کوشش کریں۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم مشترکہ جائزہ لیں گے اور آپ ہمیں بتائیں گے کہ جہاں لوگ سرحد پار کرتے ہیں اور ہم کارروائی کریں گے ۔ ہم نے ان کو اس بارے میں یقین دہانی کرائی۔ اگر آدھے افغانستان پر طالبان کو کنٹرول حاصل ہے تو وہ پاکستان میں آ کر کیا کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی ایک تاریخ ہے اور تاریخ میں افغان  ہمیشہ آزاد رہے ہیں۔ ہماری حکومت کی پالیسی ہے کہ افغان عوام جس کا بھی انتخاب کریں پاکستان  اس سے اچھے تعلقات رکھے گا۔‘
’ہمارا اب کوئی پسندیدہ نہیں، نہ ہی ہم 90 کی دہائی کی سٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔‘

شیئر: