Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایرانی حکومت کے مظاہرین پر کریک ڈاؤن پر ہیومن رائٹس واچ کی شدید مذمت

واشنگٹن سکوائر میں ایران کے مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لیے لوگ جمع ہوئے۔ (فوٹو: شٹر سٹاک)
ہیومن رائٹس واچ نے ایرانی حکومت کی جانب سے خوزستان صوبے میں احتجاج کرنے والوں پر پُرتشدد کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلٹ نے بھی پچھلے ہفتے مذمت کا اظہار کیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے پرتشدد کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کم از کم نو افراد ہلاک ہوئے، جن میں ایک بچہ بھی شامل تھا جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔
ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ یہ مرنے اور گرفتار ہونے والوں کی تعداد اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
خیال رہے کہ 15 جولائی کو پانی نہ ملنے پر خوزستان میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوا جس کو صوبے کی عرب کمیونٹی نے آگے بڑھایا اور حکومت کی عدم توجہی، عرب مخالفت اور امتیازی سلوک کے خلاف مظاہرہ کیا۔
دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ایرانی بھی اظہار یکجہتی کے طور پر اس میں شامل ہوئے۔
ایران حکام نے مظاہرین کو قتل کرنے کے لیے فسادی ہونے کا الزام لگایا۔
تاہم ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ’سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خوزستان میں سکیورٹی اہلکار مظاہرین پر آتشیں اسلحے سے فائرنگ کر رہے ہیں اور آنسو گیس پھینک رہے ہیں۔‘
لندن میں مقیم ہیومن رائٹس کے لیے کام کرنے والے رکن کریم دھیمی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’مرنے والوں کی تعداد بتائے جانے والے اعداد و شمار سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بے شمار شدید زخمی افراد گرفتاری کے خوف سے ہسپتالوں میں نہیں گئے۔‘

’کریک ڈاؤن میں مرنے والوں کی تعداد بتائی جانے والی تعداد سے زیادہ ہو سکتی ہے‘ (فوٹو: سکرین گریب)

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایرانی حکام نے لواحقین کو مرنے والوں کی لاشیں واپس کرنے کے لیے شرائط رکھی ہیں، جس میں مظاہرین کے موبائل نمبرز بھی شامل ہیں اور یہ بھی کہ کون ان کے ساتھ رابطے میں تھا، ان کے ساتھ کون تھا اور والدین کو آگاہ کس نے کیا۔‘
کریم دھیمی نے مزید بتایا کہ ’ایک اور شرط یہ ہے کہ ’مرنے والے کا والد کیمرے پر جا کر کہے کہ مظاہرین نے میرے بیٹے کو قتل کیا اور میرا بیٹا مظاہرہ کرنے والوں میں شامل نہیں تھا۔‘
ان کے مطابق ’کچھ خاندان اپنے پیاروں کی لاشیں حاصل کرنے کے لیے مجبوراً حکومت کی شرائط تسلیم کیں، جبکہ کچھ نے نہیں کیں۔‘
مرنے والوں میں سے آٹھ اہوازی عرب تھے جبکہ نواں بختیاری تھا۔

شیئر: