Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

2018 میں ن لیگ کی شکست کی وجہ غلط سٹریٹجی تھی یا دھاندلی؟

شہباز شریف نے 2018 کے انتخابات سے قبل پارٹی کی حکمت عملی پر سوال اٹھا دیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ’اگر ان کی جماعت 2018 کے الیکشنز سے قبل صحیح حکمت عملی بناتی تو نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بن سکتے تھے۔‘
 ان کے اس بیان کے بعد نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا مسلم لیگ ن حکمت عملی کی وجہ سے ہاری ہے یا دھاندلی کی وجہ سے؟
جیو نیوز پر سلیم صافی کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف نے کہا کہ ’2018 کے انتخابات سے قبل اگر اجتماعی مشاورت سے درست حکمت عملی بناتے تو شاید 2018 کے الیکشن کے نتیجے میں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن سکتے تھے۔ یہ بات میں آج بھی بلاخوف تردید کہہ سکتا ہوں۔‘
دوسری طرف مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے پیر کے روز اپنی ٹویٹس میں ایک بار پھر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مسلم لیگ ن کی 5 لاکھ ووٹوں سے 6 سیٹیں اور پی ٹی آئی کی 6 لاکھ ووٹوں سے 26 سیٹیں۔ تحریک انصاف کی ایسی فتح پر کون یقین کرے گا؟‘
’آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے نتائج جس طرح حاصل کیے گئے اُس کا تذکرہ اِن انتخابات کے دنوں سے پہلے ہی منظرعام پر آنا شروع ہوگیا تھا، باقی آنے والے دنوں میں اور بے نقاب ہوگا۔
اس سے قبل مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بھی زور دے کر کہہ چکی ہیں کہ ’وہ دھاندلی کے باعث 2018 کے انتخابات کے نتائج کو نہیں مانتیں۔‘
گو کہ جیو نیوز پر انٹرویو کے دوران شہباز شریف نے اس خبر کو جعلی قرار دیا کہ وہ اپنی بھتیجی مریم نواز شریف سے اختلافات کے باعث پارٹی صدارت سے مستعفی ہو رہے ہیں، تاہم انٹرویو کے دوران اینکر سلیم صافی کی جانب سے متعدد بار مریم نواز اور نواز شریف کےالگ بیانیے کے حوالے سے سوالات کے باوجود انہوں نے مریم نواز کے بجائے صرف نواز شریف کا نام لے کر اپنی پوزیشن واضح کی کہ ’ان کا نواز شریف سے کوئی اختلاف نہیں وہی ان کے قائد ہیں۔‘

شہباز شریف کو لائن کھینچنا ہوگی: سلمان غنی

لاہور میں شریف فیملی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی سلمان غنی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی چند دوستوں کے ہمراہ 2018 کے انتخابات سے کچھ دن قبل شہباز شریف سے ملاقات ہوئی جس میں سابق وزیراعلٰی نے برملا کہا تھا کہ ’الیکشنز کیسے بھی ہوں حکومت نہ اوپر (مرکز میں ) ہمیں ملے گی نا نیچے (پنجاب میں)۔‘
سلمان غنی کے مطابق ’کشمیر کے انتخابات میں پارٹی کی ناقص کارکردگی پر شہباز شریف نے ناراضی کا اظہار کیا ہے اور لگتا ہے کہ یہ سلسلہ اب رکے گا نہیں۔ شہباز شریف کو لائن کھینچنا ہوگی۔‘
سلمان غنی کے مطابق شہباز شریف نے حال ہی میں ایک نجی محفل میں کہا ہے کہ ’چار لوگ جن کے دو ووٹ بھی نہیں وہ پارٹی پر حاوی ہو رہے ہیں۔ شاید ان کا اشارہ مریم نواز کے قریب چند لوگوں کی طرف تھا۔‘

تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق ’کشمیر کے انتخابات میں پارٹی کی ناقص کارکردگی پر شہباز شریف نے ناراضی کا اظہار کیا‘ (فائل فوٹو: مریم نواز ٹوئٹر)

سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’شہباز شریف پارٹی اراکین کے دباؤ میں ہیں جو انہیں کہتے ہیں کہ وہ کوئی لائن لیں۔ 95 فیصد پارٹی اراکین اسمبلی شہباز شریف کے بیانیے کو پسند کرتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ ووٹ مریم نواز اور نواز شریف کے ذریعے ملیں گے مگر حکومت شہباز کے ذریعے ہی مل سکتی ہے۔‘
سینیئر صحافی احمد ولید کے مطابق ’2018 کے انتخابات سے قبل شہباز شریف اور چوہدری نثار کی حکمت عملی یہ تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنا ہے،‘ تاہم میاں نواز شریف کی طرف سے ان کی بات نہیں مانی گئی اور کہا گیا کہ ’مفاہمت کی مسلسل کوششوں کے باوجود بھی پانامہ کے نام پر ہماری حکومت ختم کی گئی۔‘
  احمد ولید کے مطابق ’شہباز شریف انتخابات سے قبل وزارت عظمیٰ کے لیے پرامید تھے، شاید انہیں امید دلائی گئی تھی تاہم انتخابات کے نتائج ان کی توقع کے برعکس آئے۔‘

سربراہ پلڈاٹ کے مطابق ’شہباز شریف کے بیان سے دانستہ یا نادانستہ پارٹی میں انتشار بڑھا ہے‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

شہباز شریف کے بیان سے پارٹی میں انتشار بڑھا ہے: سربراہ پلڈاٹ

غیر سرکاری تنظیم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کے مطابق ’شہباز شریف کا بیان ایک طرف تو اچھی پیش رفت قرار دی جا سکتی ہے کیونکہ ایک پارٹی کا سربراہ کھل کر اپنی پارٹی کی غلطی مان رہا ہے اور بہادری سے بیان کر رہا ہے۔‘
’تاہم دوسری بات یہ بھی ہے کہ شہباز شریف کو واضح کرنا چاہیے تھا کہ حکمت عملی کی غلطی سے ان کی کیا مراد ہے۔ انٹرویو کرنے والے نے بھی نہیں پوچھا کہ غلطی کیا تھی حالانکہ یہ ایک ضروری سوال تھا۔‘
احمد بلال کے مطابق ’شاید شہباز شریف یہ کہنا یہ چاہ رہے ہوں کہ پارٹی سٹریٹجی ٹھیک ہوتی تو دھاندلی کرنے والے دھاندلی نہ کرتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’شہباز شریف کے بیان سے دانستہ یا نادانستہ پارٹی میں انتشار بڑھا ہے۔ پارٹی کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ مختلف لوگ مختلف زبان بول رہے ہیں، اور اب پارٹی صدر بھی وہی زبان بول رہے ہیں۔ اس سے فکری انتشار پیدا ہوگا جو کہ فزیکل انتشار سے پہلے کا مرحلہ ہےـ‘
اس حوالے سے اردو نیوز نے مسلم لیگ ن کا موقف جاننے کے لیے پارٹی کی ترجمان مریم اورنگزیب کے علاوہ نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر کو بھی سوالات بھیجے تاہم ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔

شیئر: