Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیض آباد پر قبضہ، سینکڑوں افغان فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے

افغان طالبان نے بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ طالبان کا ایک ہفتے سے کم وقت میں نویں صوبائی دارالحکومت پر قبضہ ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صوبائی اسمبلی کے ایک رکن نے طالبان کے قبضے کی تصدیق کی ہے۔
دریں اثنا افغان میڈیا کے مطابق افغان آرمی چیف جنرل ولی محمد احمد زئی کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ جنرل ہیبت اللہ علی زئی کا تقرر کیا گیا ہے لیکن ابھی تک افغان حکومت نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی ہے۔
فیض آباد پر قبضے کے حوالے سے صوبائی اسمبلی کے رکن ذبیح اللہ عتیق کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ رات گئے سکیورٹی فورسز جو کئی دنوں سے طالبان سے لڑ رہی تھیں، شدید دباؤ میں آ گئیں۔‘
’طالبان نے اب شہر پر قبضہ کر لیا ہے۔ دونوں فریقوں کو بھاری نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔‘
دوسری جانب قندوز کے ایک مقامی رکن اسمبلی نے بدھ کو اے ایف پی کو بتایا کہ سینکڑوں افغان فوجی جنہوں نے ہفتے کے آخر میں طالبان کے شمالی شہر پر قبضہ کرنے کے بعد قندوز کے باہر ہوائی اڈے کے قریب پسپائی اختیار کی تھی، ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

اشرف غنی نے عطا محمد نور اور عبدالرشید دوستم کے ساتھ مزار شریف کی سکیورٹی سے متعلق بات چیت کی ہے۔ (فوٹو: طلوع نیوز)

قندوز کی صوبائی اسمبلی کے رکن امر الدین ولی کا کہنا ہے کہ ’فوجیوں، پولیس اور ملیشیا کے اہلکاروں نے اپنے فوجی ساز و سامان کے ساتھ طالبان کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ روز افغان طالبان نے ملک کے آٹھویں صوبائی دارالحکومت پل خمری پر قبضہ کیا تھا۔ پل خمری بغلان صوبے کا دارالحکومت ہے۔ یہ صوبہ کابل کے شمال میں واقع ہے۔
بغلان کی صوبائی کونسل کے ایک رکن معمور احمد زئی اور ایک آرمی افسر نے قبضے کی تصدیق کی جبکہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی پل خمری پر قبضے کی تصدیق کی تھی۔ 
اس سے قبل منگل کو ہی طالبان صوبائی دارالحکومت فراہ پر قابض ہوئے۔ 
فراہ کے صوبائی کونسل کی رکن شہلا ابوبر نے بتایا کہ ’اس سہ پہر سکیورٹی فورسز کے ساتھ مختصر لڑائی کے بعد طالبان فراہ شہر میں داخل ہوئے۔ انہوں نے گورنر کے دفتر اور پولیس ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کر لیا ہے۔‘

صدر اشرف غنی مزار شریف میں

دوسری جانب بدھ کے روز افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے ہاتھوں محصور شہر مزار شریف کا دورہ کیا ہے ۔ اس دورے سے ان کا مقصد شمالی علاقوں کی سکیورٹی صورت حال کا جائزہ لینا ہے۔
اشرف غنی نے مزار شریف کی بااثر شخصیت عطا محمد نور اور مشہور جنگجو عبدالرشید دوستم کے ساتھ شہر کی سکیورٹی سے متعلق بات چیت کی ہے۔
خیال رہے کہ مزار شریف پر طالبان کا کنٹرول افغان حکومت کے لیے ایک تباہ کن دھچکے سے کم نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ حکومت ان شمالی علاقوں پر اپنا کنٹرول کھو چکی ہے جو طویل عرصے سے طالبان مخالف ملیشیاؤں کے لیے مشہور رہا ہے۔

حکومتی فورسز طالبان کے خلاف قندھار اور ہلمند میں بھی برسرپیکار ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ہزاروں شہری بے گھر ہوئے ہیں
افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی کی وجہ سے ہزاروں شہری اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور انہوں نے کابل سمیت محفوظ مقامات کا رخ کیا ہے۔
طالبان جنگجوؤں کی نظریں اب شمال کے سب سے بڑے شہر مزار شریف پر ہیں، جس پر قبضہ ایک ایسے خطے میں حکومتی کنٹرول کے مکمل خاتمے کا اشارہ دے گا، جو روایتی طور پر طالبان مخالف رہا ہے۔
حکومتی فورسز طالبان کے خلاف قندھار اور ہلمند میں بھی برسرپیکار ہیں۔
افغان شہری اپنے خاندانوں کے ساتھ محفوظ مقامات کا رخ کر رہے ہیں۔ اپنے خاندان سمیت شبرغان سے آنے والی رحیمہ بھی سینکڑوں خاندانوں کے ساتھ کابل کے ایک پارک میں خیمہ زن ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’اگر کسی خاندان میں کوئی نوجوان لڑکی یا بیوہ موجود ہو تو وہ اس کو زبردستی لے جاتے ہیں۔ ہم اپنی عزت کی خاطر اپنا شہر چھوڑ کر آئے ہیں۔‘
شمالی شہر قندوز کے ایک دکاندار حبیب اللہ کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ لوگ اپنی دکانیں اور کاروبار کھول رہے ہیں لیکن آپ ان کی آنکھوں میں خوف دیکھ سکتے ہیں۔‘

لڑائی کی وجہ سے ہزاروں شہری اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’افغان رہنما متحد ہوں‘
دوسری جانب منگل کو امریکی صدر جو بائیڈن نے افغان رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ملک کے لیے لڑیں۔
جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’افغان رہنماؤں کو متحد ہونا ہوگا۔ افغان فوجیوں کی تعداد طالبان سے زیادہ ہے اور انہیں لڑنا چاہیے۔‘
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’انہیں اپنے لیے لڑنا ہے، اپنی قوم کے لیے لڑنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ انہیں اپنے انخلا کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ واشنگٹن نے 20 برسوں میں ایک ٹریلین ڈالر خرچ کیے ہیں اور ہزاروں فوجیوں کو کھو دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’امریکہ افغان فورسز کو اہم فضائی مدد، خوراک، سامان اور تنخواہیں فراہم کرتا رہے گا۔

شیئر: