Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہجری مہینوں کے ناموں میں چُھپا ’راز‘

قمری کلینڈر کی بنیاد چاند کی رویت پر ہے۔ فوٹو ان سپلیش
تمہارے ہجر میں مرنا تھا کون سا مشکل 
تمہارے ہجر میں زندہ ہیں یہ کمال کیا 
’ہجر‘ عربی لفظ ہے اور اس کے معنی 'ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں خواہ یہ جدائی بدنی ہو، زبانی ہو یا دل سے ہو۔‘ یوں اس کے معنی و مترادفات میں جدائی، فراق، مفارقت اور علیحدگی شامل ہیں۔ 
اسی ’ہجر‘ سے لفظ ’ہجرت‘ بھی ہے، جس کے معنی ’ترکِ وطن‘ کرنا ہے۔ اصطلاح میں دین و ایمان کی حفاظت کے لیے کسی مسلمان کا ایک مقام سے کسی دوسری جگہ نقل مکانی کرنا ’ہجرت‘ کہلاتا ہے۔ 
تاریخ اسلام میں ہجرتِ مدینہ کو خاص مقام حاصل ہے۔ مسلمانوں نے جب اپنا علیحدہ کلینڈر تشکیل دیا تو اس کا آغاز اسی یادگار واقعے سے کیا۔ اسی نسبت سے یہ ہجری کلینڈر کہلایا اور اسے اسلامی کلینڈر بھی کہتے ہیں۔
دنیا میں قدیم زمانے سے تین طرح کے کلینڈر رائج رہے ہیں، پہلا وہ جس کی بنیاد چاند کی رویت پر ہے، یہ ’قمری کلینڈر‘ کہلاتا ہے۔
دوسرا وہ جس کی بنیاد سورج کے گرد زمین کی گردش پر ہے، یہ ’شمسی کلینڈر‘ کہلاتا ہے۔ تیسرا وہ جس کی بنیاد ہے تو چاند کی رویت پر تاہم موسموں سے مطلوبہ مطابقت برقرار رکھنے کے لیے اس کے مقرر مہینوں یا سال میں چند دنوں کا اضافہ کردیا جاتا ہے، یہ ’قمری شمسی کلینڈر‘ کہلاتا ہے۔
زمانہ جاہلیت میں اہل مکہ نے مذہبی اور معاشی ضرورت کے پیشِ نظر ’قمری شمسی کلینڈر‘ اپنایا تھا۔ اس کلینڈر میں ہر چوتھا سال، سالِ کبیسہ (Leap year) ہوتا ہے۔
اس سال ذی الحجہ کے بعد ایک ’بے نام‘ مہینے کا اضافہ کردیا جاتا یوں حج ہر سال معتدل موسم میں آتا اور عازمین و تاجروں کے لیے مکے کا سفر نسبتاً سہل ہوجاتا۔ 
مسلمانوں نے اس ’قمری شمسی کلینڈر‘ کی جگہ خالص ’قمری کلینڈر‘ اختیار کیا۔ نتیجتاً حج و رمضان جیسی اہم عبادات کسی مخصوص موسم کی پابند نہیں رہیں۔ چودہ سو سال سے بھی زیادہ کا زمانہ بیت گیا مسلمان حج، رمضان اور عیدین وغیرہ کی ادائیگی اسی ’قمری کلینڈر‘ کے مطابق کرتے ہیں۔ 

شمسی کلینڈر کی بنیاد سورج کے گرد زمین کی گردش پر ہے۔ فوٹو ان سپلیش

اس ہجری کلینڈر کے مہینوں کا احوال کسی طور بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ ان مہینوں کی وجہ تسمیہ سے متعلق ایک سے زیادہ روایات پائی جاتی ہیں۔ ایسے میں طول کلام سے بچنے کے لیے منتخب روایات ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ 
محرم : اس مہینے کا قدیم نام ’صَفَرالاول‘ تھا۔ چوں کہ اس ماہ میں قتل کو حرام سمجھا جاتا تھا اس لیے اسے ’محرم‘ یعنی حرمت والا پکارا گیا۔ 
اہل علم کے نزدیک اس ماہ کا نام ’المحرم‘ ہے، اسے الف لام کے بغیر خالی ’محرم‘ کہنا درست نہیں، اس ماہ کودور جاہلیت میں ’مؤتمر‘ اور ’موجب‘ بھی کہا جاتا تھا۔
صَفَر: ماہ صَفَر کا نام ’صِفر‘ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ’خالی‘ کے ہیں۔ چوں کہ عرب لوگ اس مہینے میں تفریحی مقامات جنہیں ’صفریہ‘ کہا جاتا تھا، کا رُخ کرتے اور وہاں خوب کھاتے پیتے، یوں اس صفریہ کی نسبت سے اس ماہ کا نام ہی ’صَفَر‘ ہو گیا۔ 
اس ماہ کو صَفَر الثانی بھی کہا جاتا۔ ماہ محرم و صفر کا مشترکہ ذکر کرنا ہو تو انہیں ’صفرین‘ یعنی دو صفر کہا جاتا۔ دور جاہلیت میں اس ماہ کو ’ناجر‘ بھی پکارتے تھے۔ 
ربیع الاول/ ربیع الآخر: ’ربیع‘ کے معنی موسم بہار یعنی سردی اور گرمی کے درمیان کا موسم ہے۔ اسی طرح موسم بہار کی بارش کو بھی ربیع کہتے ہیں۔ یوں ربیع الاول کے معنی بہار کا پہلا مہینہ اور ربیع الآخر کے مطلب بہار کا آخری مہینہ ہے۔ 

ماہ محرم کا قدیم نام ’صَفَرالاول‘ تھا۔ فوٹو اے ایف پی

ایک بڑے عالم کے مطابق عرب لوگ ان مہینوں میں موسم بہار گزارنے کی غرض سے گھروں میں اقامت اختیار کرلیتے تھے۔ عربی میں ارتباع کے معنی موسم بہار میں قیام کرنے کے ہیں، لہٰذا اس نسبت سے ان دونوں ماہ کو ربیع سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان مہینوں کا مشترکہ نام ’ربیعین‘ یعنی دو ربیع ہے۔ 
دور جاہلیت میں ربیع الاول کو ’خوان‘ اور ’مورد‘ جب کہ ربیع الآخر کو ’بصان‘ اور ’ملزم‘ بھی کہا جاتا تھا۔ 
جمادی الاولیٰ/ جمادی الاخریٰ: دور جاہلیت میں یہ دونوں ماہ شدید سردیوں میں پڑتے تھے۔ ’جمادی‘ کی وجہ تسمیہ ہی یہ ہے کہ ان مہینوں میں سخت سردی کی وجہ سے پانی جم جاتاتھا۔ اس بات کو ’جمادی‘ کے ہم ریشہ الفاظ ’انجماد‘ اور ’منجمد‘ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ 
کلینڈر خالصتاً ’قمری‘ ہوجانے کے بعد دیگر مہینوں کی طرح ان دونوں مہینوں کی موسمی حیثیت بھی باقی نہیں رہی، نتیجتاً یہ ’جما دینے والے‘ مہینے شدید گرمیوں میں بھی وارد ہوجاتے ہیں۔ 
قبل از اسلام جمادی اولیٰ کو ’حنین، ملحان اور مصدر‘ کہا جاتا تھا۔ جمادی الاخریٰ کو جمادی الاخرۃ بھی کہتے ہیں، جب کہ برصغیر میں اسے جمادی الثانیہ یا جمادی الثانی بھی کہا جاتا ہے۔ 
رجب: یہ ہجری سال کا ساتواں مہینہ ہے۔ لفظ ’رجب‘ ترجیب سے ماخوذ ہے، جس کے معنی تعظیم کرنا ہیں۔ چوں کہ اہل عرب اس ماہ کی تعظیم کرتے اور اس میں لڑنا حرام سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے اس ماہ کو ’رجب‘ سے موسوم کیا۔   

محرم کے مہینے میں قتل کو حرام سمجھا جاتا تھا۔ فوٹو اے ایف پی

اس ماہ کو ’شہر الاصب، شہر رجم، شہر الحرام اور شہر مقیم، شہرمطہر‘ وغیرہ کے ناموں سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ 
شعبان: ’شعبان‘ کا نام لفظ ’شعب‘ سے مشتق ہے۔ شعب کے معنی میں جدا کرنا اور جمع کرنا دونوں آتے ہیں۔ 
چوں کہ اہل عرب ماہ رجب میں آرام و سکون کرنے کے بعد شعبان میں کاروبارِ تجارت اور دیگر امور انجام دینے کے لیے ملک کے دوسرے علاقوں کو نکل جاتے تھے اسی مناسبت سے یہ مہینہ ’شعبان‘ کہلایا۔ 
دورِ جاہلیت میں اس ماہ کو ’عاذل، وعل اور موھب‘ بھی کہا جاتا تھا۔ ہمارے یہاں اس ماہ کو شعبان المعظم بھی کہتے ہیں۔ 
رمضان: عام طور پر ہمارے یہاں اس ماہ کو رَم۔ ضَان (رمضان) پکارا جاتا ہے، جب کہ اس کا تلفظ ابتدائی تین حروف پر زبر کے ساتھ رَ۔مَ۔ضَان (رَمَضَان) ہے۔ رمضان لفظ ’رمض‘ سے مشتق ہے، اس کے معنی میں شدید گرمی، دھوپ کی شدت سے تپ جانے والی زمین اور گرمی کی شدت سے کسی چیز کا جلنا شامل ہے۔ 
رمضان کو ’رمضان‘ کہنے سے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ ایک قول کےمطابق اس مہینے میں گرمی کی وجہ سے اونٹوں کے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے تھے اس لیے اسے رمضان کہا گیا۔ 
ماہ رمضان کو دورِ جاہلیت میں ’ناتق اور ذیمر‘ بھی کہا جاتا تھا، جب کہ اسلام کے بعد اس ماہ کو ’شہرمبارک، شہر الصبر اور شہر الصوم‘ وغیرہ کے ناموں سے پکارا گیا۔ 

ماہ ’رمضان‘ کا لفظ ’رمض‘ سے مشتق ہے۔ فوٹو اے ایف پی

شَوّال: شَوّال لفظ ’شول‘ سے مشتق ہے اور اس کے معنی بلند ہونا، اوپراٹھانا، متفرق ہونے اور خشک ہونے کے ہیں۔ ’شَوّال‘ کے ایک معنی کم ہوجانا بھی ہے، کہاجاتا ہے کہ اس مہینے میں جانوروں کے دودھ کی قلت ہوجاتی تھی، اس لئے اس کا نام ’شَوّال‘ پڑ گیا۔ 
اسلام سے پہلے اس ماہ کو ’وَعِل، عادل اور جیفل‘ بھی کہاجاتا تھا۔ ہمارے یہاں اسے شوال المکرم بھی کہا جاتا ہے۔ 
ذوالقعدہ: اس ماہ کا نام دو الفاظ سے مرکب ہے۔ ’ذُو‘ کے معنی ہیں ’اہل، والا اور صاحب‘ ہیں، جب کہ ’قعدہ‘ لفظ ’قعود‘ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ’بیٹھنا‘ ہیں۔ دوران نماز بیٹھے ہونے کی حالت کو بھی ’قعدہ‘ کہتے ہیں۔  
اس ماہ کو ’ذوالقعدہ‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی حرمت کے پیش نظر اہل عرب اس میں تجارت، قتال اور سفر وغیرہ سے فارغ ہوکر آرام  سے بیٹھ رہتے تھے۔ اسی مناسبت سے اس مہینے کا نام ’ذی القعدہ‘ رکھا گیا۔
ذی الحجہ: یہ ہجری سال کا بارہواں اور آخری مہینہ ہے۔ اس کا شمار بھی حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے۔ چوں کہ اس ماہ میں اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ’حج‘ ادا کیا جاتا ہے، لہٰذا اس نسبت سے اس ماہ کو ’ذی الحجہ‘ یعنی حج والا مہینہ کہا گیا۔ زمانہ جاہلیت میں اس ماہ کو ’برک اور مسبل‘ بھی کہا جاتا تھا۔

شیئر: