Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’شاخسانہ‘: فقیروں کے خیرات مانگنے کا انوکھا طریقہ

’دھمال‘ قلندروں کے رقص کو بھی کہتے ہیں (فوٹو: پکسابے)
ترا مزاج تکبر کا شاخسانہ تھا
تعلقات کا منظر بدل ہی جانا تھا
جب پہلی بار معلوم ہوا کہ لفظ ’شاخسانہ‘ کی اصل ’شاخ شانہ/شاخشانہ‘
اور لفظی معنی ’شانے کی ہڈی‘ ہے، تو اس لفظ کی لطافت، کثفات میں بدل گئی۔ فارسی میں شاخشانہ اور شاخسانہ ہر دو طرح لکھا جاتا ہے، اس کے اصطلاحی معنی ’دھمکی‘ اور ’خودنمائی‘ کے ہیں۔
جب کہ اردو میں ’شاخسانہ‘ اس معنی سے الگ ’جھگڑا، بحث، فتنہ، ڈھکوسلا، دھوکا، بدگمانی، بدظنی اور باعث فساد بننے والی گفتگو‘ کے معنی میں برتا جاتا ہے۔ یوں ان معنی کے ساتھ ’شاخسانہ‘ خاص اردو کا لفظ بن چکا ہے۔
لفظی پس منظر کے مطابق ’شاخسانہ‘ کی نسبت قدیم ایران میں فقیروں کے ایک گروہ کی طرف کی جاتی ہے۔ ان فقیروں نے خیرات مانگنے کا انوکھا بلکہ گھناؤنا طریقہ وضع کررکھا تھا۔
یہ فقیر گھروں اور دُکانوں کے سامنے شانے کی ہڈی سے مکروہ آوازیں نکالتے اور پُردرد صدائیں بلند کرتے۔ اگر صاحبِ خانہ یا اہل بازار عدم التفات کا مظاہرہ کرتے تو یہ شانے کی اسی ہڈی یا چاقو سے خود کو لہولہان کرلیتے، ان کی اس حرکت سے ڈر کر لوگ انہیں کچھ نہ کچھ دے دلا کر چلتا کرتے۔ یوں فقیروں کی اس حرکت کی رعایت سے ’شاخسانہ‘ کے معنی ’دھمکی‘ ہوگئے۔
لمحہ بھر کو لفظ ’دھمکی‘ پر غور کریں، اس میں آپ کو ڈر کی ’دھمک‘ سنائی دے گی، اور سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ’دھمکی‘ لفظ ’دھمک‘ سے ہے، اور دھمک کے معنی زمین پر بھاری قدموں کی آواز کے علاوہ ’تہلکہ‘ بھی ہے۔
جب کہ خود ’دَھمک‘ کی اصل ’دَھم‘ ہے، جو گرنے اور کودنے کی آواز کو کہتے ہیں، اسی ’دَھم‘ میں ’کاف‘ نسبتی لگا تو ’دَھمک‘ بنا، جو ایک طرف ’دھمکی‘ اور ’دھمکانے‘ کے کام آیا اور دوسری طرف ’دَھماکے‘ میں سمایا۔
اب اس دھماکے کی دھمک کشمیری شاعر ’شفق سوپوری‘ کے شعر میں ملاحظہ کریں: 
دھماکا دل میں ہونے والا ہے کیا
کئی دن سے یہاں کچھ سنسنی ہے

سنسکرت میں ’دُھوما‘ کے لفظی معنی ’دھواں‘ ہیں (فوٹو: پکسا بے)

اب واپس شانے کی ہڈی پر آتے اور اس کا ایک اور کمال دکھاتے ہیں۔ قدیم زمانے ہی سے ایران میں فال نکالنے کے جو مختلف طریقے رائج ہیں اُن میں سے ایک ’فالِ شانہ‘ بھی ہے۔ کھانے کے دوران اگر قاب میں بھیڑ یا بکری کے شانے کی ہڈی آجائے تو جہاندیدہ بزرگ اسے ہتھیلی پر رکھ کر غور سے دیکھتے اور اس سے نیک و بد فال لیتے ہیں۔
فالِ شانہ کی روایت نا صرف ایران میں بلکہ ہمارے بلوچستان میں بھی اب تک موجود ہے۔ جو لوگ فال کے چکر میں پڑتے ہیں وہ نیک فال کے سچ ثابت ہو جانے پر خوشی سے نہال ہوجاتے اور ’دھوم‘ مچاتے ہیں۔
آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ لفظ ’دُھوم‘ کی اصل سنسکرت کا ’دُھوما/धूम' ہے‘ جس کے لفظی معنی ’دھواں‘ ہیں۔ 
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ’دھوم‘ اگر ’دھواں‘ ہے تو اس کا ہَلے گُلے سے کیا تعلق ہے؟
عرض ہے کہ قدیم زمانے ہی سے مختلف تہواروں کے موقع پر آلاؤ دہکانے اور اُس کے گرد جشن منانے کی روایت رہی ہے، اب یہ کام آگ کے بجائے آتش بازی سے لیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے جہاں آگ ہو گی وہاں ’دھوما/دھواں‘ تو اُٹھے گا، یہی وجہ ہے کہ ’دُھوما‘ ایک طرف ’دھوم‘ مچا رہا ہے اور دوسری طرف ’دھواں‘ بن کر آلودگی پھیلا رہا ہے۔
اب اس ’دُھوم‘ کو ذہن میں رکھیں اور لفظ اُدھم، دَھما اور دَھمال پر غور کریں، تو بات سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ تمام الفاظ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں جن کا مشترکہ مفہوم ’شور وغوغا، اُچھل کود اور ہنگامہ‘ ہے۔ اگر لفظ ’دَھما‘ غیر مانوس معلوم ہوتو اسے ترکیب ’دَھما چوکڑی‘ سے سمجھ جا سکتا ہے۔

کِھلندڑا کے بنیادی معنی کھیل کُود یا لہو لعب میں مشغول رہنے کے ہیں (فوٹو: پکسا بے)

اب دھمال کی رعایت سے ایک کمال شعر ملاحظہ کریں:
مری دھڑکنوں کو اچھال کر 
اے فشار خون دھمال کر
ویسے ’دھمال‘ قلندروں کے رقص کو بھی کہتے ہیں۔ لفظ ’قلندر‘ کے مترادفات میں صوفی اور درویش شامل ہیں، جب کہ تصوف کی اصطلاح میں ’اپنے وجود اور علائقِ دنیوی سے بے خبر اور لا تعلق‘ شخص ’قلندر‘ کہلاتا ہے، پھر اسی لاتعلقی کی نسبت سے قلندر کے مجازی معنی میں ’بے قید‘ اور ’لااُبالی‘ بھی داخل ہوگیا۔ 
’لااُبالی‘ کے معنی کے ساتھ ’قلندر‘ کا لفظ ہندی کے ’کھلنڈرا‘ کا ہم آواز ہی نہیں ہم معنی بھی ہوجاتا ہے، وہ یوں کہ ’کھلنڈرا‘ کے بہت سے معنی میں ’لااُبالی‘ کے ساتھ ساتھ ’بے فکرا‘ اور ’غیرسنجیدہ‘ بھی شامل ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دونوں الفاظ میں صوتی اور معنوی قربت اتفاقی ہے، ورنہ ان دونوں الفاظ کے ماخذ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔
لفظ ’کھلنڈرا‘ کی دوسری صورت ’کِھلندڑا‘ ہے، اور یہ لفظ ’کھیل‘ سے مشتق ہے، اس لیے اس کے بنیادی معنی کھلاڑی، کھیل کا شوقین اور کھیل کُود یا لہو لعب میں مشغول یا منہمک رہنے والا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کھیل کُود میں حد سے زیادہ دلچسپی کی رعایت سے ’کھلنڈرا‘ کے معنی میں ’لااُبالی، بے فکرا، غیر سنجیدہ، غیرذمہ دار اور غیر سنجیدہ‘ بھی شامل ہوگئے ہیں۔
 جہاں تک لفظ ’قلندر‘ کی بات ہے تو اس کا دلچسپ احوال آئندہ نشست تک مؤخر کرتے ہیں۔ فی الوقت لفظ ’کھلنڈرا‘ کو نجیب احمد کے شعر میں ملاحظہ کریں:
کھلنڈرا سا کوئی بچہ ہے دریا 
سمندر تک اچھلتا جا رہا ہے

شیئر: