Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اشرف غنی امارات میں،’ان کا افغانستان میں مزید کوئی کردارنہیں:‘امریکہ

کابل میں طالبان کے داخلے کے بعد صدر اشرف غنی افغانستان سے عمان چلے گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان کے صدر اشرف غنی متحدہ عرب امارات پہنچ گئے ہیں۔
بدھ کو متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک سطری  بیان میں کہا گیا ہے کہ ’امارات کی وزارت برائے خارجہ امور اور بین الاقوامی تعاون اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ متحدہ عرب امارات نے صدر اشرف غنی اور ان کے خاندان کو انسانی بنیادوں پر امارات میں خوش آمدید کہا ہے۔‘
دوسری جانب امریکہ  محکمہ خارجہ کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ ’امریکہ اشرف غنی کا افغانستان میں مزید کوئی کردار نہیں دیکھتا۔‘
خبر رسان ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈپٹی سیکریٹری آف سٹیٹ ونڈی شرمن نے رپورٹرز کو بتایا کہ ’ان (اشرف غنی) کا افغانستان میں مزید کوئی کردار نہیں۔‘
تاہم انہوں نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے اشرف غنی کو سیاسی پناہ دینے کے فیصلے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
امارات پہنچنے کے بعد فیس بک پر جاری اپنے پیغام میں اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ’اگر میں رہ جاتا تو افغانستان کے جمہوری صدر کو پھانسی پر ایک دفعہ پھر چڑھایا جاتا۔ مجھے مجبوری کے تحت افغانستان سے نکالا گیا تاکہ خونریزی اور کابل تباہی سے بچ جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اتنی جلدی میں سکیورٹی اہلکاروں نے نکالا کہ میں چپل بھی نہیں بدلے۔‘
’گذشتہ دنوں میں میرے خلاف بہت سے الزامات لگے کہ میں اپنے ساتھ رقم لے گیا ہوں، یہ الزامات مکمل طور پر جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ اس قسم کے الزامات کو سختی سے رد کرتا ہوں۔‘  ’میزبان ملک خالی ہاتھ آئے ہیں، آپ کسٹمز ڈیپارٹمنٹ سے پوچھ سکتے ہیں۔‘
’مجھے اپنی فوج پر فخر ہے۔ ہماری فوج نے شکست نہیں کھائی بلکہ اصل میں ہمیں شکست سیاست میں ہوئی۔ یہ ناکامی طالبان، ہماری حکومت اور بین الاقوامی شراکت داروں کی  ناکامی تھی۔‘
’گذشتہ دنوں کے واقعات نے بتا دیا ہے کہ افغان امن چاہتے ہیں اور کابل ایک بہت بڑی افراتفری سے بچ گیا ہے۔ یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے مذاکرات کی حمایت کرتا ہوں جو چیئرمین عبداللہ عبداللہ اور سابق صدر حامد کرزئی کی سربراہی میں ہو رہے ہیں۔ ’چاہتا ہوں کہ مذاکرات کا یہ سلسلہ کامیاب ہو۔‘
انہوں نے کہا ’میں اپنے ملک واپس جاؤں گا، ماضی میں بہت سے حکمران بوقت ضرورت ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔‘
خیال رہے گزشتہ اتوار کو جب طالبان  افغانستان میں داخل ہوگئے تھے تو صدر اشرف غنی اپنے رفقا کے ساتھ ملک چھوڑ گئے تھے.
مبینہ طور پر صدر اشرف غنی افغانستان سے عمان چلے گئے تھے۔
ملک چھوڑنے کے بعد سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں اشرف غنی نے کہا تھا کہ انہوں نے ملک میں خون ریزی روکنے کے لیے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

اشرف غنی کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے مذاکرات کی حمایت کرتا ہوں جو عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی کی سربراہی میں ہو رہے ہیں۔ (فوٹو: اے پی)

اشرف غنی کا اپنے فیس بک پیج پر جاری پیغام میں کہنا تھا کہ ’آج مجھے مسلح طالبان کے سامنے کھڑے ہونے جو صدارتی محل میں داخل ہونا چاہتے تھے یا اپنے پیارے ملک کو چھوڑ جانے میں سے ایک مشکل انتخاب کا سامنا تھا۔‘
’اگر میں رہتا تو بے شمار ہم وطن شہید ہوتے اور کابل شہر کو تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑتا اور نتیجہ 60 لاکھ کے شہر میں ایک بڑے انسانی المیے کی صورت میں رونما ہوتا۔ طالبان نے دھمکی دی تھی کہ وہ مجھے ہٹانے کے لیے کابل اور کابل کے لوگوں پر حملے کرنے کے لیے تیار ہیں۔ خونریزی کے سیلاب سے بچنے کے لیے میں نے بہتر سمجھا کہ باہر چلا جاؤں۔‘ 

شیئر: